0

ہمارے لکھاری؟ اور ہمارا انصاف؟تحریر : ثمن سرفراز


ہمارے لکھاری؟ اور ہمارا انصاف؟تحریر : ثمن سرفراز
لکھاری ہونا آسان نہیں ہے۔آپ یقیناََسوچ رہے ہیں کہ لکھنا دشوار کیسے ہے؟ ایک لکھاری کا قلم اسکا زیور ہوتا ہے وہ اسے سینے سے لگائے رکھتا ہے۔وہ زیست کی ریل گاڑی میں بیٹھے اپنے پانچوں اعصاب بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر مناظر اپنے قلم سے عکس بند کرتا ہے۔ایک لکھاری اپنی زندگی اپنے تخیل کی پٹھری پر گزارتا ہے۔ وہ تدبر کی ناقابلِ ادراک گہرائی میں غرق ہوتا ہے۔ ایک لکھاری ذہن کے دروازے پر لپکنے والے ہر خیال کو فوراََ قلم بند نہیں کرلیتا بلکہ ہر خیال کو وقت کی پٹھری، صداقت کے پل اور تجربات کی تلخیوں سے گزارتا ہے۔ ذہن میں آمدِ تخیل سے لے کر ایک اشاعتی صورت اختیار کرنے کے تک ناجانےکتنی بار ایک جملے کو تجزیے کے چولہے پر یہ سوچ کر رکھا جاتا ہےکہ اگر ناقص ہوا تو خاک ہو جائے گا بصورتِ دیگر پک کر اپنی صداقت کا انکشاف کرے گا۔
ایک لکھاری وہ خلقِ خدا ہے جو اپنے لفظوں کا لبادہ اوڑھے اپنا نام بناتا ہے۔ وہ آنسوؤں کی جھیل کو بطورِ سیاہی استعمال کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔
وہ اپنے تلخ تجارب سے روشناس کراتا ہے تاکہ سماج کے باشندوں کو منہ کے بل گر کر وہ سبق نہ سیکھنے پڑیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ایک لکھاری اپنے قلم سے ایک سخت اور پتھریلی زمین پر اپنے الفاظ سے کچھ بیج بوتا ہے جنکی فصل اسے کاٹنی پڑتی ہے۔یہ ضروری نہیں کہ انکی فصل ہمیشہ اچھی ہی ہو بلکہ بعض لکھاریوں کو انکی باغیانہ تحاریر پر قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھلنی پڑتی ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک لکھاری کی تحریر اسکے دبائے ہوئے بیج بار آور ہی نہ ہو سکیں وہ بھی ٨٠ فیصد تحاریر کی طرح گرد آلود ہو کر رہ جائے۔دورِ حاضر میں ہم کتب بینی سے بہت دور جا چکے ہیں۔ بالخصوص اردو کتب بسر اوقات ردی میں پڑی ملتی ہیں۔صورتحال اس قدر نازک ہے کہ ہم اپنی قومی زبان سے بھی نابلد ہیں اور ہوں بھی کیسے نا؟جبکہ ہم نے اس کی بقا کے لیے کوئی قابلِ قدر اقدامات نہیں کیے۔ وہ کونسی کسر ہے جو ہمارے نصاب دانوں، والدین اور تعلیم دانوں نے اردو کی اہمیت کم کرنے کے لیے اٹھا نہیں رکھی؟ وہ کون سے تیر ہیں جو ہم نے اپنی زبان کی بقا کے لیے چلائے ہیں؟ ہم نے کچھ نہیں کیا۔۔ نتیجتاََ! ہم اور ہماری نسلیں اردو تحاریر اور ان کے لکھنے والوں کوسوں دور ہو گئے، ہم یورپ کی اندھی تقلید میں راہِ راست تک کھو چکے ہیں۔
لکھاری بننا آسان نہیں!
کچھ بھی سہل نہیں ہوتا!
ہو سکتا ہے جو آپکے لیے آسان ہے وہ کسی اور کے لیے نہ ہو۔ لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ ہر ایک کو دل کھول کر سراہیں۔ سب کی حوصلہ افزائی کریں جہاں تک ممکن ہو سکے۔ بالخصوں ہمارے اجداد کی امانت ہماری اردو زبان اور اس لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ صرف آپ کے تھوڑے سے وقت سے کوئی ادب کی حقیقی خدمت کر سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں