
ناول: طپش
مصنفہ: ماہم حیا صفدر
قسط نمبر: 08
نومبر کی الوداعی راتیں کسی سنگ دل محبوب کے لہجے جیسی تلخ اور سرد ہو رہی تھیں۔ خُنک رات کے نوکیلے، پتھریلے لمحے اس کے اس زخم کو چھیل رہے تھے جس پر کبھی کھرنڈ آیا ہی نہ تھا۔ کوٸی اس پل اس سے پوچھتا کہ دنیا کی سب سے بڑی محرومی کیا ہے تو وہ بلا تردد کہتا; اپنی اصل شناخت کا نہ ہونا۔
شناخت کسی بھی انسان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندہ رہنے کے لیے ہوا۔ اپنی پہچان، اپنا خاندان اور اپنی ساکھ ہوتے ہوٸے بھی کسی اور سے منسوب ہو جانا کیسا تکلیف دہ امر ہے یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو اس سب سے گزرا ہو۔
وہ اس سب سے گزرا تھا۔ اس نے یہ سب جھیلا تھا۔ اس کے لیے سب کچھ تکلیف دہ تھا مگر ستم تو یہ تھا کہ اس کے مجرم کو کسی قسم کا کوٸی قلق نہ تھا۔ اس کے سفید دامن پر گناہ کی دھول کا شاٸبہ تک نہ تھا۔
نیم تاریک گلی کے کونے میں ایک لیمپ پول کے نیچے فٹ پاتھ پہ بیٹھا وہ اپنی سانسوں کی بے ترتیبی سے نبرد آزما تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس مجرم کا سنگلاخ چٹانوں جیسا چہرہ ابھرا تھا۔
”میں اپنی ماں کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں تمہیں برباد کر دوں گا!“ خود کلامی کے انداز میں اس نے سلگتے ہوٸے کہا اور ایک گہری سانس بھر کے اٹھ کھڑا ہوا۔
*****
اس سے قبل کہ میلانا آج اس سے معذرت کرتی اس نے بنا اسے موقع دیے اپنے ردِ عمل پر معذرت کر لی۔ جب میلانا نے ویرا کو کال کر کے بتایا تو ویرا کو واسل کا یہ عمل برا لگا۔ اس کے نزدیک وہ میلانا کے مہمان تھے اور ان کی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچانا اس کی ذمہ داری تھی۔ واسل کو اپنے شدید رد عمل کے لیے معذرت کرنی چاہیے تھی مگر پہلے میلانا کو اپنی غلطی کا احساس ہونا چاہیے تھا۔
جن سے ہم محبت کرتے ہیں انہیں دانستہ یا انجانے میں انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے سر پر چڑھا لیتے ہیں۔ پسندیدہ لوگوں کے سامنے جھکنا اچھا عمل ہے لیکن ہر بار انہیں ان کی غلطی کا احساس دلاٸے بنا جھکتے رہنا تعلق کے لیے مضر ہوتا ہے۔ ہم غلط ہوں یا صحیح، اگر ہم ہی معذرت کرتے رہیں گے تو سامنے والا ”معذرت“ کہنا بھول جاٸے گا۔ اگر ہم کسی کو ”اچھا، ٹھیک ہے!“ کہنے تک محدود کر دیں گے تو وہ کبھی غلط ہوتے ہوٸے بھی اپنی غلطی نہیں مانے گا۔
وہ نارمل ہو گٸے تھے مگر پھر بھی میلانا کو کوٸی ان چاہا خلا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اس سے کھل کر بات کرنا چاہتی تھی مگر الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
”واسل! تم ہمارے گھر آٶ نا! اولیانا تم سے ملنا چاہتی ہے۔ غالباً تمہاری اس سے ملاقات ہو چکی ہے۔“ وہ چھٹی کے وقت کلاس سے نکلے ہی تھی کہ ارون نے کچھ یاد آنے پر اسے بتایا۔
جب اس نے اولیانا کو میلانا کی برتھ ڈے پارٹی کی روداد سناٸی تو اسے بہت برا محسوس ہوا تھا۔ پتا نہیں کیوں مگر اس نے واسل سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
واسل کو اس سرخ بالوں والی لڑکی سے ہونے والی اپنی ملاقات یاد آٸی تو اداسی سے مسکرا دیا۔
”ہاں کیوں نہیں! ہماری ملاقات کافی اچھی اور یادگار رہی تھی۔ میں اس سے دوبارہ ضرور ملنا چاہوں گا۔“ واسل نے جواب دیا تو میلانا کو پتا نہیں کیوں ناگوار گزرا۔
وہ ارون کی بہن سے ملی نہیں تھی مگر اس کا ذکر اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔ خصوصاً واسل کا کسی یادگار ملاقات کا حوالہ دینا اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔
”تو پھر وعدہ کرو کہ تم آج شام آ رہے ہو۔“ ارون یقین کر لینا چاہتا تھا۔
اس نے اولیانا سے کہا تھا کہ وہ ضرور واسل کو اس سے ملواٸے گا۔ اتنے عرصے میں یہ پہلی بار تو تھا کہ اولیانا نے کسی کا ذکر کیا تھا اور ملنے میں دلچسپی لی تھی۔
”آج شام تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس ویک اینڈ پر اولیانا سے ملنے ضرور آٶں گا۔“ واسل نے مسکرا کے وعدہ کر لیا تو میلانا نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
”ٹھیک ہے، اب میں چلتا ہوں!“ ارون نے ان سے ملتے ہوٸے اجازت چاہی۔
”کیا تم اس ویک اینڈ پر میرے ساتھ کافی پینے چلو گے؟“ میلانا نے اس کے برابر چلتے ہوٸے پوچھا تو وہ چونکا۔
جلد ہی اس نے اپنی حیرت پر قابو پا لیا۔
”نہیں! کیا تم نے ابھی سنا نہیں کہ میں اس ویک اینڈ پر اولیانا سے ملنے کا وعدہ کر چکا ہوں۔“ سنجیدگی سے جواب دیتا میلانا کو وہ اجنبی سا لگا۔
”تو کیا ہوا؟ اس سے ملنے تم کسی اور دن بھی جا سکتے ہو۔“ میلانا نے مسٸلہ حل ہی تو کر دیا تھا۔
”بہت معذرت میلانا یگور! کمٹمنٹ بھی کسی چیز کا نام ہے اور میں کسی حال میں اپنی کمٹمنٹس نہیں توڑتا۔“ اس نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا تو اس کے قدم تھمے۔
”کیا تم اپنی دوست پر کسی اور کو ترجیح دے رہے ہو؟“ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔
”نہیں! میں اپنی کمنٹمنٹ کو اپنی اس دوستی پر ترجیح دے رہا ہوں جسے تم کسی کے سامنے بھی لاوارث چھوڑ دیتی ہو۔“ رکھاٸی سے کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔
میلانا نے اپنی مٹھیاں کھولیں۔ اس کے جبڑے بھنچ گٸے تھے۔ پتا نہیں کیوں مگر اسے واقعی واسل کا اولیانا کو اس پر ترجیح دینا بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔
*****
ویرا کو کچھ ضروری چیزیں خریدنا تھیں سو مدد کے لیے وہ میلانا کو بھی ساتھ لے آٸی تھی۔ پچھلے ایک گھنٹے میں وہ مختلف جگہوں پر اسے شرمندہ کروا چکی تھی۔ ٹھیک ہے وہ اپنی چوری کے ”ان بلٹ فیچر“ کے ہاتھوں مجبور تھی لیکن وہ اس عادت پہ قابو پانے کی کوشش بھی تو نہیں کر رہی تھی۔ وہ بچوں کی سی معصومیت اور خوشی سے کوٸی غیر ضروری چیز دیکھتی اور اگلے ہی پل وہ چیز اس کے کوٹ کی کسی اندرونی جیب میں ہوتی۔ ویرا بار بار اس کے ڈس آرڈر کی تفصیلات بتاتی، اس کی چراٸی چیزیں لوٹاتی ہلکان ہو رہی تھی۔
”اوہ خدا! میلانا تم کیا کرتی ہو؟ یہ شیونگ کٹ تمہارے کس کام کی تھی؟“ ویرا نے شاپنگ مال سے باہر نکلتے ہوٸے کہا۔
”ویرا! تم نے دیکھا یہ کس قدر خوب صورت ہے۔“ بچوں کی سی سرخوشی سے اس نے اچھل کے کہا تو ویرا نے اپنا سر پیٹ لیا۔
کچھ ضروری چیزیں خریدتے ہوٸے اسے بالکل یاد نہیں رہا کہ ”میلانا; دی ریڈی میڈ چورنی“ اس کے ساتھ ہے۔ کب وہ مال کے مختلف حصوں میں گھومتی شیونگ کٹ چرا لاٸی اسے کچھ علم نہ ہوا۔ یہ تو بھلا ہو انتظامیہ کا کہ بجاٸے اسے پولیس کے حوالے کرنے کے ویرا کی کہانی پر یقین کر لیا کہ انہیں وہ خریدنا تھی۔
اسے بچانے کے چکر میں وہ ایک غیر ضروری چیز خرید چکی تھی کہ اب وہ مزید اس کے ڈس آرڈر کی کہانی سنانے سے عاجز آ چکی تھی۔
”تمہارے چکر میں مجھے اس غیر ضروری چیز کو قیمت ادا کر کے خریدنا پڑا۔“ ویرا نے دانت پیسے۔
”غیر ضروری کیوں؟ تم یہ ارون کو تحفے میں بھی تو دے سکتی ہو۔“ اس نے اک شانِ بے نیازی سے مشورہ دیا تو ویرا اسے گھور کے رہ گٸی۔
وہ شو سٹور کے سامنے موجود تھیں۔
”دیکھو میلانا! خدا کے لیے اب یہاں مجھے شرمندہ مت کروانا۔ میں تم سے معافی چاہتی ہوں کہ میں نے آج یہ غلطی کی مگر میرا یقین کرو میں آٸندہ تمہیں کبھی خریداری کے لیے ساتھ نہیں لاٶں گی۔“ ویرا نے سٹور میں داخل ہونے سے قبل ہاتھ جوڑ کے اس سے درخواست کرنا ضروری سمجھا تھا۔
”اوکے ویرا، جیسا تم کہو!“ اس نے نہایت تابعداری سے سر ہلاتے ہوٸے شاپنگ بیگز سنبھالے سٹور میں قدم رکھا تو ویرا نے ایک گہری سانس خارج کی۔
”آداب محترمہ! آپ کو کیسے جوتے درکار ہیں؟ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟“ ایک شاٸستہ سی پروفیشنل اور جانی پہچانی آواز ویرا کی پشت پہ ابھری تو وہ چونک کے پلٹی۔
”ہٸےےے واسل! تم یہاں کام کرتے ہو؟“ ویرا نے خوش گوار حیرت سے پوچھا۔
”جی مادام!“ وہ مکمل پروفیشنل لگ رہا تھا۔
میلانا نے غور کیا کہ اس نے اسے یکسر نظر انداز کیا تھا۔ وہ برا سا منہ بنا کر کِڈز سیکشن کی طرف ہو لی۔ وہ وہاں پڑے ایک خوب صورت سے جوڑے کی طرف متوجہ ہوٸی۔ وہ تین چار سالہ بچی کے پہننے کے لیے ننھے ننھے نفیس سے جوگرز تھے۔
”مجھے ایسے معیاری جوگرز درکار ہیں جو اس بدلتے ہوٸے موسم میں میرے پیروں کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھ سکیں۔“ ویرا نے کہا تو اس نے سمجھتے ہوٸے سر ہلایا۔
”ہاں یہ زیادہ کمفرٹیبل ہیں۔“ ویرا نے ایک نیلے جوڑے کو پسند کیا۔ میلانا بھی آ گٸی اور سر ہلا کے تاٸید کی۔
اس سے قبل کہ وہ قیمت ادا کرنے کے لیے کاٶنٹر تک جاتی سٹور کا ایک ملازم وہاں آیا۔
”محترمہ، اپنے کوٹ کی جیب سے جوتے نکالیں!“ وہ سختی سے مخاطب ہوا تو ویرا کا منہ کھل گیا۔
”کون سے جوتے؟“ میلانا نے دگنی حیرت کا مظاہرہ کیا تو ویرا کا خون کھول گیا۔ واسل نے افسوس سے میلانا کو دیکھا۔
”دیکھیے یہاں ہر طرف سی سی ٹی وی کمیراز لگے ہوٸے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا کہ آپ نے کِڈز سیکشن سے ایک جوڑا اٹھا کے اپنے کوٹ کی اندرونی جیبوں میں چھپایا ہے۔“ اس نے انگلی اٹھا کر سختی سے کہا تو میلانا کا منہ لٹک گیا۔
”میلانا! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ چلو جلدی سے وہ جوتے واپس کر دو!“ ویرا نے دانت پیستے ہوٸے کہا۔
”لیکن میں نے یہاں سے کچھ بھی نہیں چرایا۔ مجھے تمہاری قسم۔۔۔“ اس سے قبل کہ وہ آگے بڑھ کے اس نووارد ملازم کے سر پہ ہاتھ رکھتی وہ بدک کے پیچھے ہوا۔
”اگر آپ ایسے نہیں مانیں گی تو ہمیں مجبوراً آپ کو پولیس کے حوالے کرنا پڑے گا۔“ وہ تیز لہجے میں بولا تو میلانا کا رنگ فق ہوا۔
اس نے جلدی سے اندرونی جیبوں میں سے وہ چھوٹے چھوٹے جوتے نکالے۔
”میں یہ کسی کو نہیں دوں گی۔ ویرا! پلیز مجھے یہ خرید دو!“ محبت سے ان جوتوں کو دیکھتی ہوٸی وہ رقت سے بولی تو وہ سب حیران ہوٸے۔
”میلانا! دیکھو میری جان نہ تو تم خود بچی ہو نہ ہی تمہاری کوٸی بچی ہے جو میں تمہیں یہ خرید دوں۔ چلو، یہ انہیں واپس کر دو!“ ویرا نے اسے نہایت محبت سے بہلاتے ہوٸے کہا تو اس نے معصومیت سے نفی میں سر ہلایا۔
اس سے قبل کہ وہ مزید کچھ کہتی واسل نے وہ جوتے اس کے ہاتھوں سے جھپٹ لیے۔
”تم جاٶ! میں یہ دیکھتا ہوں۔ شاید وہ یہ جوتے خریدنا چاہتی ہے۔“ اس نے دوسرے ملازم سے کہا تو وہ ناگواری سے کندھے اچکا کر لوٹ گیا۔
”محترمہ آپ بلنگ سیکشن میں جا کر اپنے ڈیوز کلیٸر کرواٸیں اور اپنے جوگرز خرید لیں۔“ واسل نے اسے یکسر نظر انداز کرتے ہوٸے ویرا کو مخاطب کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ویرا! میرے جوتے۔۔۔خدا کے لیے مجھے وہ لے دو!“ ویرا کے مضبوط بازو کے سہارے گھسٹتی ہوٸی وہ پلٹ پلٹ کر ان جوتوں کو دیکھ رہی تھی جو واسل کے ہاتھوں میں تھے۔
”خاموش ہو جاٶ ورنہ میں جاتے ہوٸے تمہیں کسی پولیس اسٹیشن میں دے جاٶں گی۔“ ویرا نے اسے دھمکی۔
”خدا کرے کہ اس دکان میں آگ لگ جاٸے اور سارے جوتے میرے دل کی طرح جل کر راکھ ہو جاٸیں۔“ وہ منہ بسورتی اپنے ”میلانا یگور“ ہونے کا ثبوت دیتی جا رہی تھی۔
وہ نظروں سے اوجھل ہوٸی تو واسل ان جوتوں کی قیمت دیکھ کر کچھ سوچنے لگا۔
*****
اتوار کی سست سی دوپہر بونڈرز پیلس کے بام و در پہ پوری شان سے سستا رہی تھی جب وہ پیلے ٹیولپس کا گلدستہ تھامے وہاں آیا۔ گھر کے مکین شاید ہفتے بھر کی تھکن اتار رہے تھے۔ ایک ملازم کی ہمراہی میں وہ لاٶنج میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کا سامنا سیڑھیوں سے اترتے مسٹر ایڈورڈ سے ہوا۔ روایتی گھریلو لباس میں ملبوس، قیمتی سگریٹ کیس اور لاٸٹر تھامے شاید وہ سگریٹ پھونکنے کے لیے یہاں آ رہے تھے۔ واسل نے انہیں دیکھ کر احتراماً سیڑھیوں سے کچھ فاصلے پر ٹھہر گیا تو ملازم پلٹ گیا۔
مسٹر ایڈورڈ کی شخصیت میں کچھ ایسا ضرور تھا جو واسل کو ٹھہر جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔
اور واسل کی شخصیت میں کچھ ایسا ضرور تھا جو مسٹر ایڈورڈ کو چونک جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔
ابھی بھی وہ چونک کر آخری زینے پر ٹھہر گٸے تو واسل نے جھٹ انہیں آداب کہا جسے انہوں نے سر کو خم کر کے وصول کیا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو لڑکے؟“ ان کی پاٹ دار آواز گونجی۔
”میں دوست سے ملنے آیا ہوں۔“ واسل نے جلدی سے کہا۔
”ارون سے؟ وہ اپنی ماں کے ساتھ خریداری کے لیے گیا ہے۔“ وہ جانتے تھے مگر پھر بھی سوال کرنا ضروری سمجھا۔
”نہیں میں ارون سے ملنے نہیں آیا۔“ وہی انداز تھا۔
”تو پھر اس گھر میں تمہارا دوسرا دوست کون ہے؟“ وہ چونکے۔
”میں اولیانا سے ملنے آیا ہوں۔“ اس کے جواب اور ہاتھوں میں پکڑے ہوٸے گلدستے پر انہوں نے ایک سلگتی ہوٸی نظر ڈالی۔
”بہت خوب! تم باہر لان میں ٹھہرو میں اسے بھیجتا ہوں۔“ کچھ سوچتے ہوٸے انہوں نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
”جی بہتر!“ وہ سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا۔ اسے ان کا انداز کافی ہتک آمیز لگا تھا مگر ضبط کر گیا۔
وہ پر سوچ انداز میں اپنی مختصر سی ڈاڑھی کو کھجاتے ہوٸے پلٹ گٸے۔ اولیانا کے کمرے کے سامنے ٹھہرتے ہوٸے انہیں کیا کیا یاد نہ آیا تھا۔
اسی دروازے پر آ کر انہوں نے اس سے اپنی ساکھ کی بقا کی بھیک مانگی تھی۔
اسی دروازے پہ ایک دستک دے کر انہوں نے اس سے وکٹر کو چھوڑ دینے کی بھی درخواست کی تھی۔
چار سال بعد وہ آج پھر اس دروازے پہ آن ٹھہرے تھے۔ اس بار وہ اس سے کچھ مانگنے نہیں آٸے تھے بلکہ وہ تو کچھ جاننے آٸے تھے۔ دروازے پر دستک دے کر وہ ٹھہر گٸے۔ اولیانا نے دروازہ کھولا تو انہیں وہاں دیکھ کر اسے یقین نہیں آیا۔
”بابا! آپ۔۔۔“ اس سے قبل کہ وہ اپنی حیرت کا اظہار کرتی انہوں نے اس کی بات کاٹی۔
”تم سے ملنے کوٸی لڑکا آیا ہے۔“
وہ گھر میں ملازموں کے ہوتے ہوٸے اولیانا کو بس یہ بتانے آٸے تھے کہ اس سے کوٸی ملنے آیا ہے، یہ اولیانا کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔
اولیانا۔۔۔!
وہ جو ان کی لاڈلی اور پیاری بیٹی تھی، جسے وہ عزیز رکھتے تھے اور جس سے وہ خفا تھا۔
”وہ کہاں ہے؟“ وہ شاید اسے جانتی تھی اسی لیے جلدی سے پوچھا۔
”وہ نیچے لان میں تمہارا منتظر ہے۔“ سپاٹ لہجے میں بتاتے وہ اس کا مکمل جاٸزہ لے رہے تھے جو اس کی آمد کا سن کر خوش تھی۔
وہ آگے بڑھی تو وہ راستے سے ہٹ گٸے۔ اسے سیڑھیوں سے غاٸب ہوتے دیکھ کر وہ پُرسوچ انداز میں اپنی ٹھوڑی کو کھجانے لگے۔ کچھ پل توقف کے بعد انہوں نے اپنا موباٸل فون نکالا اور کوٸی نمبر ملانے لگے۔
”ہاں، سنو! ایک لڑکے کے بارے میں مجھے سب کچھ جلد از جلد جاننا ہے۔ اس کی تصویر۔۔۔“ وہ کسی کو ہدایات دیتے ہوٸے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸے۔
*****
اسے اولیانا کا انتظار کرتے دس منٹ ہو چلے تھے جب وہ اپنی مخصوص حزنیہ مسکراہٹ لبوں پہ سجاٸے وہاں آٸی۔
واسل نے کرسی سے اٹھ کے اس کا استقبال کیا تو اولیانا نے اسے گلے لگا کے خوش آمدید کہا۔
”یہ پھول تمہارے لیے!“ واسل نے اسے گلدستہ پیش کیا تو اس کی مسکراہٹ سمٹی۔
مرے مرے ہاتھوں سے اس نے گلدستہ تھام کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اس کے سامنے والی کرسی سنبھال لی۔
”کیا تمہیں یہ پھول پسند نہیں آٸے؟“ وہ اس کے تاثرات سے یہی اخذ کر پایا تھا۔
”نہیں۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔ یہ وکٹر کے پسندیدہ پھول تھے۔“ اس نے ایک گہری سانس خارج کی۔
”اوہ!“ واسل نے افسوس سر ہلایا۔
”خیر تم سناٶ! تم کیسے ہو؟“ اس نے بات بدلی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟“ ان کی گفتگو میں پہلی ملاقات والی بے تکلفی کی بجاٸے رکھ رکھاٶ تھا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں۔ میں سپاس گزار ہوں کہ تم میرے بلانے پر مجھ سے ملنے چلے آٸے۔ امید ہے کہ تمہیں میرا یوں بلانا برا نہیں لگا ہو گا۔“ اس نے ایک ٹیولپ کو گلدستے سے جدا کیا۔
”نہیں، بالکل نہیں!“ واسل نے جلدی سے کہا۔
”کیا تم میرے ساتھ کافی پینا پسند کرو گے؟“ اولیانا نے پوچھا تو اس کے ذہن کے پردے پر ایک منظر ابھرا جہاں وہ اس سے پوچھ رہی تھی;
”کیا تم اس ویک اینڈ پر میرے ساتھ کافی پینے چلو گے؟“
”تم کہاں کھو گٸے؟“ اسے خاموش پا کر اولیانا نے پکارا تو چونکا۔
”نہیں۔۔۔میں یہیں ہوں!“
”کیا تم نے اس سے اپنے دل کی بات کہی؟“ اولیانا نے اسے غور سے دیکھتے ہوٸے پوچھا۔
”کس سے؟“ وہ جان بوجھ کر انجان بن رہا تھا۔
”اس فراک والی لڑکی سے، جس کو رسلان کے ساتھ دیکھ کر تم افسردہ ہو گٸے تھے۔“ اس نے اسے پارٹی والی رات کا حوالہ دیا۔
”نہیں، میرا نہیں خیال کہ اب اس کی ضرورت ہے۔“ اس نے ایک گہری سانس اندر اتاری۔
”تم اتنی جلدی مایوس کیوں ہو جاتے ہو؟“ اولیانا کو حیرت ہوٸی۔
”میں حقیقت کو جلدی تسلیم کر کے مایوس ہونے کو عمر بھر خوش فہمیاں پال کے مایوس ہونے پر ترجیح دیتا ہوں۔“ وہ حد درجہ حقیقت پسند ہو رہا تھا۔
”میرا خیال ہے کہ تمہیں نیک گمان اور خوش فہمی میں فرق کرنا چاہیے۔“ وہ سنجیدہ ہوٸی۔
”میں زندگی کو کسی ایسے نیک گمان پہ وار دینے کا قاٸل نہیں ہوں جس کا انجام روزِ اول سے ہی آپ کے سامنے ہو۔“ وہ بضد تھا۔
”ہو سکتا ہے روزِ اول نظر آنے والا انجام ہماری اپنی ہی بے مہار سوچوں کا گمراہ کن عکس ہو۔“ وہ اسے منفیت سے بچانا چاہتی تھی۔
”پھر بھی میں کسی گمان کے تحت کیے جانے والے غلط فیصلوں کی نسبت مناسب فاصلوں کو اپنانا پسند کرتا ہوں۔“ وہ زندگی کو اپنی نظر سے دیکھتا تھا۔
”جیسا تم بہتر سمجھو! آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟“ اولیانا نے جیسے ہار مان لی تھی۔
”کچھ خاص نہیں۔۔۔فی الحال تو ماسٹرز مکمل کرنا ہے۔ پھر وہی زندگی جو منسک کے کسی بھی نچلے درجے کے شہری کی ہوتی ہے۔“ اس نے بے فکری سے کندھے اچکاٸے۔
”ایک بات کہوں؟“ اولیانا نے کچھ پل توقف کے بعد کہا۔
”ہاں کہو!“ وہ متوجہ ہوا۔
”جب میں پہلی بار تم سے ملی تھی تو تم میں وکٹر نظر آیا تھا۔ تم بالکل اس کی طرح مایوس اور اداس سے لگے تھے۔ لیکن آج دوسری ملاقات میں تمہاری باتوں نے وہ سارا فسوں توڑ دیا ہے۔ تمہیں پتا ہے کہ وہ ایک غریب اور محنتی انسان تھا۔ اس کا تعلق نچلے درجے کے لوگوں میں سے تھا مگر وہ اپنے شخصی وقار کو کسی طور کم گردانتا نہ ہی اس پر سمجھوتہ کرتا۔ اس کے برعکس بعض اوقات تم اپنی قدر و قیمت کو خود ہی گھٹاتے رہتے ہو۔“ وہ بولی تو بولتی چلی گٸی۔
اس نے شاید کسی حد تک اس کی ذات کا درست جاٸزہ لیا تھا۔ وہ ایسا ہی تو تھا۔ اپنی کم ماٸیگی اور بے بسی کا احساس اسے شدت سے ہوتا تھا اور اکثر نہ کرنے والی جگہوں پر بھی وہ اس کا اظہار کر جاتا تھا۔ وہ اکثر مایوس بھی ہو جاتا تھا۔
”یہ میں ہوں اولیانا! میں واسل موروز ہوں۔ تمہیں مجھے وہی سمجھنا چاہیے جو میں ہوں۔ میں وکٹر یا کسی بھی اور شخص کا پرتو نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص کے حالات الگ اور اس کی کہانی مختلف ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں مجھ میں یا کسی بھی اور میں وکٹر کو تلاشنا بند کر دینا چاہیے۔“ اس کا انداز ناصحانہ تھا۔
”شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو!“ اولیانا نے ایک گہری سانس خارج کی۔
”کیا تم مجھے اپنے اور وکٹر کے بارے میں بتانا پسند کرو گی؟“ واسل نے کچھ سوچتے ہوٸے اسے مخاطب کیا جو ایک دم خاموش ہو گٸی تھی۔
*****
چار سال قبل:
ان دنوں وہ اپنی گریجوایشن مکمل کر چکی تھی جب قصر میں ایک نیا باورچی آیا تھا۔ اپنی فارغ البالی اور بیزاریت کو دور کرنے کے چکر میں دبلے پتلے، کم گو، بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں والے اس پچیس سالہ لڑکے کو تنگ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا تھا۔ شوخ و شنگ سی اولیانا جو مسٹر ایڈروڈ کی لاڈلی بیٹی تھی، دن بھر ملازموں کی ناک میں دم کیے رکھتی۔ مصوری اور سکیچنگ کے نام پر وہ ان بیچاروں کی شکلیں بگاڑ بگاڑ کے ایسے ایسے نادر نمونے تخلیق کرتی کہ وہ روہانسے ہو جاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ یہ سب جان بوجھ کے کرتی تھی۔ درحقیقت اس میں پینٹنگ کا جوہر ایسا اور اتنا ہی تھا۔ جب اس کا دل چاہتا گھنٹوں گھنٹوں کسی ملازم یا ملازمہ کو اپنے سامنے اکڑوں بٹھاٸے کافی اور سنیکس سے لطف اندوز ہوتی آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کے اس کی شکل کو امر کر دیتی۔ مسز دامینیکا اپنی خفگی کا اظہار کرتیں تو مسٹر ایڈورڈ اور رسلان ہنستے ہوٸے انہیں ٹال دیتے۔ رہا ارون تو وہ تو تھا ہی اس کا پکا حمایتی۔
اب جو وکٹر کی آمد ہوٸی تو اس نے اپنا بقیہ وقت باورچی خانے کو آباد (دوسرے لفظوں میں برباد) کرنے میں صرف کرنا شروع کر دیا۔ آٸے دن وہ اس کی ”مدد“ کرنے کے بہانے کھانا خراب کر دیتی اور کھانے کی میز پر جب مسٹر ایڈورڈ اسے ڈانٹتے ہوٸے سنگین نتاٸج کی دھمکیاں دیتے تو وہ معصومیت سے اس کی سفارش کر کے اس کی سات نسلوں پر احسان کر دیتی۔
ایک دن تو اولیانا نے اس بے چارے کی رنگین تصویر ایسی رنگین بنا ڈالی کہ صدمے کی شدت سے اس کی آنکھیں بھر آٸیں۔ لیکن جب اولیانا نے اپنے ہنر کی داد چاہی تو اس نے بڑے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیف اسٹیک جیسی ناک والی تصویر کو فریم کروانے کے لیے گھر لے گیا۔
اسی نوک جھونک میں کب ان دونوں کو ایک دوسرے کی عادت ہوٸی اور کب وہ محبت میں بدلی کسی اور کو تو کیا خود انہیں بھی خبر نہ ہوٸی۔ اولیانا کی پڑھاٸی سے جان جاتی تھی سو مزید کہیں بھی داخلہ لینے سے انکاری تھی کہ اس نے تو گریجوایشن بھی مر مر کے مکمل کیا تھا۔ انہی دنوں میخاٸل کی دوسری بیوی اسے دغا گٸی۔ اس بار مسٹر اینڈ مسز رامن کی نظرِ انتخاب اولیانا پہ پڑی۔ اسٹیٹس اور خاندانی وقار میں وہ بونڈرز کے ہم پلہ نہ سہی اتنے گٸے گزرے بھی نہ تھے۔ کچھ کاروباری تعلقات و معاملات کی بنا پر اور ٹیکسٹاٸل بزنس میں اپنے تیس فیصد شیٸرز مسٹر ایڈورڈ کے نام کر دینے جیسی پیشکش پر اس رشتے کی بنیاد رکھی گٸی تو انہوں نے سوچنے کا وقت لے لیا۔
مسٹر ایڈورڈ اور رسلان کو ہر لحاظ سے اولیانا کے لیے یہ ایک ”پرفیکٹ میچ“ لگ رہا تھا۔ مسز دامینیکا نے بھی اپنی نیم رضا مندی کا اظہار کر ہی دیا کہ ان کے یہاں یہ کوٸی غیر معمولی بات نہ تھی۔ لیکن جب اولیانا کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بے چین ہو گٸی۔ اسے میخاٸل کبھی پسند نہیں رہا تھا۔ ان کے تعلقات بہت گہرے تھے اور وہ اس منفی واٸبز رکھنے والے شخص سے ہمیشہ دور بھاگتی تھی جو کسی طور بھی معقول نہیں لگتا تھا۔ مسٹر رامن کی فیملی جلد از جلد شادی کرنے کے حق میں تھی۔ گھر کے دیگر ملازمین کی طرح وکٹر کو بھی جب جلد ہی قصر میں ہونے والے منگنی کے فنکشن کے بارے میں علم ہوا تو وہ مایوس ہو گیا۔
المختصر اولیانا نے ایک شام چپکے سے میخاٸل کے نام کی انگوٹھی پہن لی۔ دل کے ہاتھوں اس کا اصل امتحان اسی پل شروع ہوا تھا جب وکٹر کی بجھی بجھی آنکھوں نے اس کے اندر بغاوت جنم دیا۔
ایک مختصر اور مناسب سے اظہار نے ان دونوں کو یک جان دو قالب کر دیا تو اس نے میخاٸل کے نام کی انگوٹھی اتار کے مسٹر ایڈورڈ کے سامنے رکھ دی۔ وہ جو شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا لالچ، خاندانی ساکھ اور اسٹیٹس انہیں اولیانا کے اس بچگانہ فیصلے کی کبھی پشت پناہی نہیں کرنے دے سکتا تھا۔
وکٹر کو ذلیل کر کے نوکری سے تو نکال دیا گیا مگر وہ اولیانا کے دل سے نہ جا سکا۔ مسز دامینیکا اور رسلان نے اولیانا کو میخاٸل کے لیے قاٸل کرنا چاہا۔ مسٹر ایڈورڈ نے بھی بار بار اسے سمجھایا۔ ایک ارون ہی تھا جس نے اس کا ساتھ دیا۔ اولیانا کی طرح وہ بھی میخاٸل کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ وہ جو وکٹر اور اولیانا کی محبت کا گواہ تھا اس نے انہیں اپنی بھرپور مدد کا یقین دلایا۔ جب مسٹر ایڈورڈ کسی طرح نہ مانے تو اپنی شادی کی مقررہ تاریخ سے تین دن قبل ایک چرچ میں ارون کی موجودگی میں اولیانا نے وکٹر سے شادی کر لی۔ اولیانا کی زبانی یہ خبر بونڈرز پیلس پر بجلی بن کر گری۔ مسٹر ایڈورڈ جو بزنس میں زیادہ شیٸرز کے مالک بننے جا رہے تھے پگلا گٸے۔ انہوں نے اس خبر کو دبانا چاہا۔ وہ اسے وکٹر کو چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے تو وکٹر کو لالچ دی مگر وہاں بھی ناکام رہے۔ اس سے قبل کہ وہ مزید کوٸی کوشش کرتے ارون نے مسٹر رامن اور ان کی فیملی کو جا کر ساری تفصیلات بتا دیں جنہوں نے اس سب کو مسٹر ایڈورڈ کی بد عہدی گردانا۔
اولیانا تو قصر چھوڑ گٸی مگر ارون کی سہولت کاری بھی اس کا ناقابلِ معافی جرم بن گٸی۔ مسٹر ایڈورڈ ایک غریب ملازم کو اپنے داماد کے روپ میں قبول کرنے سے انکاری تھے۔ دوسری جانب انہیں اپنے سرکل میں پہلے بولے گٸے بڑے بڑے بولوں کے نتیجے میں جو طنز سننا پڑے تو اولیانا سے ان کا تنفر بڑھتا گیا۔
دوسری جانب ایک محل سے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں جانے والی اولیانا کے لیے زندگی اس قدر نا مہربان ہو جاٸے گی اسے گمان تک نہ تھا۔ ان کا چھ ماہ کا مختصر ساتھ محبت اور زندگی سے بھرپور تھا۔ وہ اس کے لیے پھول لاتا، کھانا بناتا اور وہ اس کے عجیب و غریب سکیچز اور تصاویر بناتی۔ یہی ان کی محبت تھی اور یہی ان کے تحاٸف تھے۔
وہ دونوں وکٹر کی سن رسیدہ ماں کے ساتھ رہتے تھے جو دل کی مریضہ تھی۔ انہوں نے بارہا بونڈرز فیملی سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی مگر مسٹر ایڈورڈ کی انا اور ضد آڑے آتی رہی۔ اس دوران نو عمر ارون نے سب کی ناپسندیدگی کے باوجود ہمیشہ بہن کو جذباتی سہارا فراہم کیا۔
وکٹر جو ایک پھولوں کی دکان پر بطور ملازم کام کرنے لگا تھا، ایک شام سڑک پار کرتے ہوٸے ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا۔ وکٹر کی ماں اپنے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکی اور اس کا دل بند ہو گیا۔ اس کا گھر اور اس کے سارے خواب مختصر دورانیے میں ہی اجڑ گٸے۔ملازماٶں کے جھرمٹ میں پلنے والی اولیانا کو تو کوٸی ہنر بھی نہیں آتا تھا کہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہو جاتی۔ ارون اسے ضد کر کے بونڈرز پیلس واپس لے آیا کہ وہ بالکل اکیلی رہ گٸی تھی۔ مسٹر ایڈورڈ نے اسے قصر میں رہنے کی اجازت تو دے دی مگر اس سے قطع کلامی برقرار رکھی۔ مسز دامینیکا اور رسلان نے وقت گزرنے کے ساتھ سب قبول کرتے ہوٸے اس کے لیے قدرے گنجاٸش پیدا کر لی مگر مسٹر ایڈورڈ اپنی ہتک کے جواز کو معاف نہیں کر سکے۔
اولیانا کو وقت اور حالات نے بدل کے رکھ دیا۔ شوخ و شنگ اور حساس سی اولیانا کہیں بہت پیچھے رہ چکی تھی۔ وہ چاہ کر بھی وکٹر کو فراموش نہیں کر سکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے دل کے دروازے بند کر لیے تھے اور مسز دامینیکا کی خواہش کے باوجود کسی سے شادی یا کوٸی بھی تعلق استوار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
*****
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے اولیانا نے پلکوں پہ آٸی نمی کو داٸیں ہاتھ کی پشت سے صاف کیا تو واسل نے اپنی کلاٸی پہ بندھی گھڑی کو دیکھا۔
انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ نمی کی ہلکی سی تہہ نے اس کی گرے آنکھوں کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔
”میں نے تمہیں بھی اداس کر دیا۔“ اولیانا اسے دیکھتے ہوٸے جبراً مسکراٸی۔
”بالکل نہیں! مجھے اچھا لگا کہ تم نے مجھ سے یہ سب بانٹ لیا۔“ اس نے نرمی سے کہا۔
”کاش ہم اچھے وقتوں میں ملے ہوتے۔“ اولیانا نے افسردگی سے کہا۔
”ہاں تاکہ تم میرے بھی الٹے سیدھے سیکچز اور تصویریں بناتی رہتی۔“ واسل نے جلدی سے کہا تو وہ بے ساختہ ہنس دی۔
”اب میں اتنی بری مصورہ بھی نہیں تھی۔“
”تمہاری داستان بتاتی ہے کہ تم مصورہ ہی نہیں تھی۔“ واسل نے ہاتھ اٹھا کے کہا تو وہ کھلکھلا دی۔
شاید وہ ایک لمبے عرصے کے بعد یوں ہنسی تھی۔ شاید وکٹر کی موت کے بعد پہلی مرتبہ۔
”تم چاہو تو میں تمہارے لیے اس لڑکی کا پورٹریٹ بنانے کے لیے اپنی خدمات دے سکتی ہوں۔“ اس نے پیشکش کی۔
”ہرگز نہیں!“ واسل نے دہل کے کہا تو ہنس دی۔
”ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔ یہ ایک یادگار ملاقات تھی۔“ واسل نے اٹھتے ہوٸے کہا۔
”میرے لیے بھی! تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے اپنے آپ کو یاد کرنے کا موقع دیا۔“ وہ مشکور تھی۔
”یہ کوٸی بڑی بات نہیں ہے۔ تم جب بھی اپنے آپ کو یاد کرنا چاہو مجھے پکار سکتی ہو۔ میں تمہیں ہمیشہ دستیاب رہوں گا۔“ واسل نے اسے یقین دلایا۔
”تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔ ایک بار پھر سوچ لو! کہیں ایسا نہ ہو کہ کبھی میں ضرورت کے تحت تمہیں پکاروں اور تم مجھے سن کے بھی دھتکار دو۔“ وہ دونوں ہاتھ سینے پہ لپیٹ کے دلچسپی سے بولی۔
”اگر ایسا ہو تو تم مجھے انسان ہونے کا مارجن دے کر دوبارہ پکار لینا۔“ اس نے سادگی سے کہا۔
”کوٸی کوٸی پکار ایسی ہوتی ہے دل سے لبوں تک کا سفر صرف ایک بار ہی کرتی ہے۔ اگر اسے پہلی بار نہ سنا جاٸے تو وہ مر جاتی ہے۔ اسے مکرر کرنا ناممکن ہوتا ہے۔“ اس کو رخصت کرنے کی غرض سے وہ اس کے ساتھ چلتی ہوٸی راہداری کی طرف بڑھی۔
”واسل، رکو! میری بات سنو!“ اس سے قبل کہ وہ اولیانا کو جواب دیتا اندرونی حصے سے نکلتے رسلان نے اسے پکارا۔
”لو تمہارا رقیب آ گیا۔ میں چلتی ہوں۔“ اولیانا نے شرارت سے کہا۔
”تم بھول رہی ہو کہ وہ تمہارا بھاٸی ہے۔“ واسل نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں بالکل! لیکن تمہارا کیا لگتا ہے، یہ تم اب خود ہی طے کر لو!“ وہ مزے سے کہہ کے اندر کی جانب بڑھی تو رسلان نے اسے آ لیا۔
”کیسے ہو؟“
”میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے رکھاٸی سے جواب دیا۔
”کیا تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہو؟“ رسلان نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔
واسل نے بنا کچھ کہے اپنے شانے پہ دھرے اس کے ہاتھ کو دیکھا۔
”دیکھو! اس رات میں نے جو کچھ بھی کہا یا کیا اس کے لیے میں معافی چاہتا ہوں۔“ اس نے نہایت خلوص سے معذرت چاہی۔
”کوٸی بات نہیں! میرا ردِ عمل بھی شدید تھا۔ امید کرتا ہوں ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی دوبارہ نہیں ہو گا۔“ واسل نے ایک گہری سانس بھر کے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
”بہت شکریہ! دراصل میں میلانا کے لیے نہایت ہی منفرد اور جداگانہ جذبات رکھتا ہوں۔ اس کے اردگرد کسی دوسرے شخص کو دیکھنا یا اس سے کسی کا خاص نسبت سے قربت بڑھانا مجھے بے چین کر دیتا ہے۔“ اس کے لہجے میں محبت بھری بے بسی تھی۔
واسل کا دل جیسے مٹھی میں آ گیا تھا۔ اس نے گویا رسلان کی زبانی اپنا حال سن لیا تھا۔ وہ اسے جواب تک نہ دے سکا۔
”کیا تم نے مجھے معاف کر دیا؟“ اس نے تسلی چاہی۔
”ہاں بالکل!“ اس نے بمشکل جواب دیا۔
”کیا تم یہی بات میلانا کو بتا سکتے ہو؟“ اس نے پوچھا تو واسل نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”دراصل وہ مجھ سے خفا ہے۔ وہ مجھ سے بات تک نہیں کر رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس کے دوستوں سے معافی مانگنی ہو گی۔ یقیناً تم دوست ہو اور ایک دوسرے کے لیے بہت اہم ہو۔ داٶد سے میں کال پر معذرت کر چکا ہوں۔ اس سے قبل کہ میں تم سے بات کرتا تم مجھے یہاں مل گٸے۔“ اس نے وضاحت کی تو واسل کو ایک خوش گوار حیرت نے آن لیا۔
میلانا یگور واقعی عجیب تھی۔ کس وقت اس کے دل میں، اس کے دماغ میں کیا ہوتا تھا اور وہ کیا کر گزرتی تھی کوٸی نہیں جانتا تھا۔ اس نے کافی حد تک واسل کو غلط ثابت کر دیا تھا کہ وہ دوستی نبھانا نہیں جانتی۔
”مجھے کیا کرنا ہو گا؟“ واسل نے پوچھا۔
”تمہیں میلانا کو یقین دلانا ہو گا کہ ہمارے درمیان جو رنجش تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔“ رسلان نے اسے بتایا۔
”ہاں ٹھیک ہے!“ اس نے بے دلی سے اثبات میں سر ہلایا۔ حالاں کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے رسلان سے خفا رہے مگر ایسا ناممکن تھا۔
”وہ میرے کسی میسج کا جواب دیتی ہے نہ کال اٹینڈ کرتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ وہ تمہاری اچھی دوست ہے۔ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟“ اپنی گردن پہ ہاتھ پھیرتے ہوٸے اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر رازداری سے پوچھا۔
”ہاں بولو!“ وہ بدقت بول پایا۔
”کل دن میں۔۔۔“ وہ اسے آہستہ آہستہ کچھ بتا رہا تھا جسے سنتے ہوٸے وہ سر ہلا رہا تھا۔
*****
آج اس نے فلیٹ کی تفصیلی صفاٸی کی تھی۔ میلانا کو تو مر کے بھی یہ توفیق نہیں ملنے والی تھی سو یہ کام اسی کے ذمے تھا۔ یہ کیا سارے کام ہی اس کے ذمے تھے کیوں کہ صفاٸی ستھراٸی اور میلانا کے دور دور تک کوٸی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح ”کھانے پکانے“ میں میلانا کو صرف ”کھانے“ سے رغبت تھی۔ یہ سب عیاشیاں وہ ایک محدود بجٹ میں ویرا کے توسط سے کر رہی تھی۔
اب جو وہ تھکی ہاری بستر پہ گری تو فوراً سو گٸی۔ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب اس کے موباٸل فون نے بے ہنگم انداز میں چیخنا اور تھرتھرانا شروع کیا۔ مندی مندی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہوٸے اس نے ساٸیڈ ٹیبل سے موباٸل فون اٹھایا اور بنا کالر کا نام دیکھے کال اٹینڈ کی۔
”ہیلو!“
دوسری جانب خاموشی تھی۔
”کون احمق انسان ہے؟ اگر رات کے اس وقت کال کر ہی لی تو کچھ بولو بھی!“ وہ جھنجھلاتے ہوٸے سیدھی ہو بیٹھی۔
”جنم دن مبارک ہو ویرا!
تمہیں تمہارا جنم دن بہت مبارک ہو!“ دوسری جانب سے ابھرتی گنگناتی ہوٸی آواز نے اسے چونکایا۔
اس نے پوری آنکھیں کھول کر وال کلاک کو دیکھا۔ رات کے بارہ بجے تھے۔ اس نے ساٸیڈ ٹیبل پر پڑے چھوٹے سے۔کیلینڈر پر تاریخ دیکھی جو اس کی برتھ ڈیٹ کہیں سے نہیں تھی۔
”تمہیں کس نے کہا کہ آج میرا جنم دن ہے؟ میرا جنم بارہ فروری کو ہو گا۔“
”یہ تو مجھے پتا ہے۔“ بے نیازی سے جواب دیا گیا۔
”تو پھر یہ گیت کس خوشی میں گا رہے ہو؟“ اس کے تن بدن میں آگ لگی تھی۔
”ابھی بارہ بجے ہیں نا!“ اس کی معصومیت عروج پہ تھی۔
”کیا؟ بارہ تو معمول کے مطابق بجتے ہیں۔ اب کیا تم ہر شب بارہ بجے میرا جنم دن منایا کرو گے؟“ وہ غصہ نہ کرتی تو کیا کرتی۔
”وہ دراصل مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو میں نے سوچا تم سے بات کر لوں۔“ اپنے پلنگ پہ نیم دراز کشن گود میں دباٸے ارون نے جلدی سے وضاحت کی۔
”ہاں؟ کیا؟ کیا تم نے میری نیند صرف اس لیے برباد کی ہے کہ تمہیں نیند نہیں آ رہی تھی؟“ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
”ہاں نا!“ نہایت معصومیت سے اعتراف کیا گیا تھا۔
”ارون!“ وہ ضبط کے باوجود چلاٸی۔
”جی!“ وہ ویسے اتنا فرماں بردار بھی نہیں تھا۔
”میں تمہارا خون پی جاٶں گی!“ اسے اپنی نیند کی بربادی کا غم ستا رہا تھا۔
”ہاہاہاہا ٹرسٹ می میرا خون تمہاری بناٸی گٸی کافی سے کٸی گنا زیادہ لذیذ اور راحت بخش ہو گا۔“ اس نے یادگار کافی کا حوالہ دیا تو اس کے لب بھی کھل اُٹھے۔
”کیا تم نے یہی سب بکواس کرنے کے لیے کال کی ہے؟“ اب کی بار اس نے مصنوعی خفگی سے پوچھا۔
”نن۔۔۔نہیں! وہ میں کیا کہہ رہا تھا کہ۔۔۔“ دوسری جانب وہ جلدی سے سیدھا ہو بیٹھا۔
لایعنی باتوں کا تبادلہ جاری تھا۔ ویرا کی نیند تو اُجڑ چکی تھی مگر ان کی رات کو محبت نے آباد کر دیا تھا۔
*****
”تم مجھے کہاں لے کے جا رہے ہو؟“ میلانا نے اس سے سوال کیا۔
اس نے یونیورسٹی سے نکلتے ہوٸے اسے اپنے ساتھ کہیں چلنے کی فرماٸش کی تھی جسے اس نے مصنوعی پس و پیش کے بعد قبول کر لیا تھا۔ مگر واسل نے ابھی تک اسے نہیں بتایا تھا کہ وہ اسے کہاں اور کیوں لے کے جا رہا تھا۔
”کیا تم کچھ دیر خاموشی سے نہیں چل سکتی؟“ واسل جھنجھلایا۔
”مسٹر واسل موروز! میں پچھلے پچیس منٹ سے ایک ہی سوال پوچھ رہی ہوں۔“ وہ خفا ہوٸی۔
”مگر تھکی تم پھر بھی نہیں۔“ اس نے افسوس سے سر ہلایا۔
”لیکن تم۔۔۔“
اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتی وہ اس کا ہاتھ تھام کے کافی شاپ “Beans & Beans” میں گھس گیا۔
”تمہاری طرف میری ایک کافی ادھار تھی۔“ سبز آنکھوں میں جھانکتے ہوٸے اس نے استحقاق سے کہا۔
”ہاں؟ تم مجھے یہاں کافی پلانے لاٸے ہو؟“ اسے حیرت ہوٸی۔
”پلانے نہیں، پینے کے لیے لایا ہوں۔“ اس نے اسے کچھ یاد دلانا چاہا۔
”احمق آدمی تم یہ مجھے پہلے بھی بتا سکتے تھے۔ اس وقت میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ اس مہنگی کافی شاپ کو دیکھتے ہوٸے اس نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
”کوٸی بات نہیں۔ تم اپنے ہاتھ کی صفاٸی دکھاٶ اور کسی کا بھی پرس چرا لو!“ واسل نے سادگی سے کندھے اچکاتے ہوٸے ایک خالی میز کے سامنے پڑی کرسی سنبھالی۔
”تم مجھے چوری کی ترغیب دے رہے ہو؟“ میلانا کی آنکھیں صدمے سے پھیل گٸیں۔
”ہاں بالکل!“
اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھتی یا کہتی اس نے ویٹر کو آرڈر نوٹ کروا دیا۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ اس نے اپنی کرسی سے آگے جھکتے ہوٸے اسے بتایا مگر اسے فرق نہیں پڑا۔
کچھ ہی دیر میں ان کا آرڈر آ چکا تھا اور وہ کافی سے انصاف کرتا ہوا اس کی حالت سے لطف اٹھا رہا تھا۔
”تم رسلان سے خفا کیوں ہو؟“ اس نے اچانک پوچھا۔
”تمہیں ایسا کس نے کہا؟“ وہ چونکی۔
”میں اسے معاف کر چکا ہوں۔“ اس نے میلانا کا سوال نظر انداز کیا۔
”تو؟“ اس نے سوالیہ انداز میں ابرو اٹھاٸے۔
”اس رات جو بھی ہوا اگر تم اس وجہ سے اس سے ناراض ہو تو اب تم اسے معاف کر سکتی ہو۔“ اس نے کس دل سے اسے کہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔
”اوہ! کیا آپ کوٸی اور مشورہ دینا پسند کریں گے؟“ اس نے ٹھوڑی تلے ہتھیلی ٹکاتے ہوٸے پوچھا۔
”نہیں!“ اس نے تلخ کافی کا گھونٹ حلق میں انڈیلا۔
”پتا ہے واسل مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ تم مجھے اپنے طور پہ چلانا چاہتے ہو۔ میں کسی بات پہ ردعمل دینے میں تاخیر کر دوں تو تم کہتے ہو کہ مجھے دوستی نبھانی نہیں آتی۔ میں جلدی کروں تو تمہیں لگتا ہے کہ میں احمق ہوں۔ آخر میری کسی سے خفگی یا صلح تمہارے مطابق کیوں ہو؟ تم یہ سب کیوں کرتے ہو؟ مجھے صاف صاف بتاٶ کہ آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو؟“ سبز آنکھیں الجھن کا شکار تھیں۔
شاید یہ وہی لمحہ تھا جس میں وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنی اور اس کی ہر الجھن مٹا سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر سکا۔ اسے اس کی باتیں تکلیف دہ لگی تھیں۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسے ڈومینیٹ کرنا چاہتا ہے۔
”میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تمہیں یہ سب سوچنے پر مجبور کیا۔ میں آٸندہ تمہارے معاملات سے دور رہوں گا۔“ گرے آنکھوں میں کرب کے ساٸے تھے۔
”میرا یہ مطلب نہیں تھا واسل!“ اس نے نرمی سے اسے کہا جو غلط فہمی کی زد پہ تھا۔
اس سے قبل کہ وہ کوٸی جواب دیتا ایک خوشبو کے جھونکے نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے شاندار طریقے سے تیار ہوا وہ میلانا کے سامنے تھے۔ اس نے حیرت سے اک نظر اسے دیکھا جس کا اس وقت وہاں ہونا اسے اتفاق لگا تھا۔
”یہ تمہارے لیے!“ اس نے گلدستہ اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے رسماً مسکرا کے تھام لیا۔
واسل نے جلدی سے کافی کا آخری گھونٹ حلق میں اتار کے مگ ٹیبل پہ رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں نے اسے بتا دیا ہے۔“ اس نے رسلان کو مخاطب کیا تو میلانا نے الجھ کر ان دونوں کو باری باری دیکھا۔
رسلان نے سر کو خم دے کر گویا اس کا شکریہ ادا کیا۔
”میں چلتا ہوں، میری کافی کا بل دے دینا۔“ واسل نے سادگی سے کہا۔
”تم کہاں جا رہے ہو؟“ میلانا نے پوچھا۔
مگر بنا جواب دیے رسلان کو کرسی کی جانب بڑھنے کا اشارہ کر کے اس نے بیگ اٹھا لیا۔
”یور گیسٹ!“ اس نے یوں کہا جیسے عدالت میں دورانِ جرح ایک وکیل دوسرے وکیل کو کہتا ہے; ”یور وٹنیس!“
”میں معافی چاہتا ہوں کہ مجھے تم سے ملنے کے لیے یہ سب کرنا پڑا۔ تم میرے کسی میسج کا جواب دے رہی تھیں نہ کال اٹینڈ کر رہی تھیں۔ میں تم سے مل کر ہمارے درمیان آٸی رنجش کو ختم کرنا چاہتا تھا اسی لیے واسل کو کہا کہ وہ تمہیں مجھ سے ملوا دے۔“ رسلان نے سامنے بیٹھ کر اسے وضاحت دی تو اس نے سب سمجھتے ہوٸے سر ہلایا۔
یہ سچ تھا کہ اسے وہاں دیکھ کر اسے یہ اتفاق لگا تھا اور وہ ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوٸی تھی۔ لیکن یہ جان کر اسے دکھ ہوا تھا کہ یہ پہلے سے ترتیب دیا گیا پروگرام تھا جس میں واسل بھی شامل تھا۔
بوجھل قدموں سے باہر نکلتے ہوٸے اس نے ایک نظر پلٹ کر ضرور دیکھا مگر وہ سبز آنکھوں میں پھیلے شکوے کو دیکھنے سے قاصر تھا۔
وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ رسلان اس سے کچھ کہہ رہا تھا سو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گٸی۔ یہ سچ تھا کہ اسے واسل کا یہ عمل برا لگا تھا۔
*****
یہ ناشتے کا وقت تھا جب نتالیہ مریضہ کے لیے دلیہ بنا کے لاٸی۔ بوڑھا اپنے کھیت میں مصروف تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا تھا جہاں وہ ایک ملازم کی مدد سے کھیتی باڑی کرتا تھا۔
اس کی حالت قدرے سنبھلی ہوٸی لگ رہی تھی۔ ناشتہ بنانے سے قبل نتالیہ نے اس کا منہ ہاتھ دھلوا کے کپڑے بدل دیے تھے۔ بالوں میں کنگھی کر کے وہ اسے پلنگ کی پشت سے ٹیک لگوا کر دلیہ بنانے گٸی تھی۔ اب جو وہ لوٹی تو اسے اسی حالت میں پایا۔ اس کے ڈانٹنے کا اثر تھا یا کچھ اور وہ آج کل اپنا کام ایمانداری سے کر رہی تھی۔ دوسری جانب اس کی ضد میں بھی کمی آٸی تھی کہ اب وہ موت کو کم یاد کیا کرتی تھی۔
اس نے دلیہ کھلا کے اسے دوا دی۔ اس سے قبل کہ وہ خالی برتن لیے کمرے سے نکلتی وہ بولی;
”ویسے تم معقول لڑکی ہو۔“
”کیا میں تمہیں پسند ہوں؟“ نتالیہ نے چہک کے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوٸے پوچھا۔
”ہاں، تم اچھی لڑکی ہو۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”تو تم مجھے مستقل اپنے پاس رکھ لو نا!“ اس نے چمکتی آنکھوں سے کہا۔
”تم پہلے ہی سارا دن میرے سر پر سوار رہتی ہو۔ اب کیا تمہارا رات کے وقت بھی یہیں قیام کرنے کا ارادہ ہے؟“ وہ خفا ہوٸی۔
”نہیں۔۔۔نہیں! تم غلط سمجھ رہی ہو۔ دیکھو جو تمہارا بیٹا ہے۔۔۔تم اگر چاہو تو میری اور اس کی شادی کروا دو۔ میں ہمیشہ تمہاری خدمت۔۔۔“
”تم اپنی خدمات سمیت جہنم میں جاٶ! تم اس سے دور رہو!“ اس سے قبل کہ نتالیہ اپنی بات مکمل کرتی وہ سختی سے بولی۔
”میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا ہے۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”تم ملازمہ ہو اور ملازمہ ہی رہو گی۔ اس سے آگے تم کچھ بھی مت سوچو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ اس نے خلا میں گھورتے ہوٸے اسے سختی سے کہا۔
نتالیہ کا دل جیسے مٹھی میں آ گیا ہو۔ اسے اس کی حیثیت یاد دلانے کے معاملے میں تو الزاٸمر کی مریضہ بھی نہیں چوکتی تھی۔ بھلا وہ اس کا مرتبہ کیوں کر بدلتا۔ آنکھوں میں امڈتی نمی پہ قابو پاتے ہوٸے اس نے برتن اٹھاٸے اور جلدی سے باہر نکل گٸی۔
”یہ لڑکی مخبوط الحواس ہے۔“ کمرے میں مریضہ کی سرگوشی گونجی۔
*****
داٶد نے میلانا کو بتا دیا تھا کہ رسلان نے اس سے معذرت کر لی تھی۔ میلانا کا دل رسلان کی جانب سے صاف ہو گیا تھا۔ یقیناً وہ ایک اچھا اور مخلص انسان تھا جسے اس کا اور اس کے جذبات کا خیال تھا۔ یہ اس کی محبت ہی تھی کہ اس کے کہنے پر اس نے اس کے دوستوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی تھی۔
یونیورسٹی میں اس کی واسل سرسری سی گفتگو ہوٸی تھی۔ میلانا کے برعکس وہ ویسا ہی تازہ دم اور خوش باش تھا۔ وہ رسلان سے اس کی صلح ہی نہیں کروا کے آیا تھا شاید اسے مکمل سونپ آیا تھا۔
کبھی کبھار محبت کو اختیار کیے رکھنے سے بہتر اس سے دستبردار ہو جانا ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ہم اگر کسی نٸے بندھن میں نہ بندھ سکتے ہوں تو پرانے تعلق کو توڑنا ضروری نہیں ہوتا۔ جہاں نٸے رشتہ کا نہ بن سکنا واضح نظر آ رہا ہو وہاں اپنی محبت اور طاقت صرف کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اس کی محبوبہ نہیں بن سکتی تھی تو کیا ہوا؟ وہ اس کی اچھی دوست تو تھی نا! ایک ایسی دوست جو اس کے لیے اپنے محبوب سے بھی خفا ہو سکتی تھی۔ واسل موروز کو خوش ہونے کے لیے اس کے علاوہ کیا درکار تھا؟ اب اسے بس اپنے دل کو ہی تو سمجھانا تھا۔ ہاں وہی دل جو بار بار نہ چاہتے ہوٸے بھی تڑپ تڑپ جاتا تھا۔ شاید ابھی اسے یہ جاننا باقی تھا کہ محبوب سے دستبردار ہونا آسان ہے محبت سے نہیں۔
سیاہ جینز اور سرخ سویٹر پہنے، کیمرہ ہاتھ میں لیے وہ دریاٸے نیامیہ کنارے گھومتا اپنے اندر کی ہلچل سے نبرد آزما تھا۔ اپنے داٸیں ہاتھ کچھ فاصلے پر کھیلتے بچوں کی تصویر لے کر اس نے کیمرہ باٸیں جانب گھمایا ہی تھا کہ وہ تھم گیا۔
یہ منظر شاید اس کے تخیل کا شاخسانہ تھا۔ اس نے تصویر کھینچ کر خود کو غلط ثابت کرنا چاہا۔ اس نے ایک اور تصویر کھینچی مگر وہ منظر ابھی بھی وہیں تھا۔
وہ اس سے کچھ فاصلے پر نیلی جنیز شرٹ اور سیاہ لانگ کوٹ میں ملبوس سینے پہ ہاتھ باندھے موجود تھی۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا اس کے گالوں کو سرخ کر رہی تھی۔ ہوا میں اڑتے بال منظر میں ارتعاش پیدا کر رہے تھے۔
”تم؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ اسے حیرت ہوٸی تھی۔
”مجھے پتا تھا کہ تم یہاں ہو گے اسی لیے آٸی ہوں۔“ میلانا آگے بڑھی۔
”کیا تمہیں مجھ سے کوٸی کام تھا؟“ وہ اسے حیران کر رہی تھی۔
”تم سے ملنے کے لیے کسی کام کا ہونا شرط ہے کیا؟“ اس نے سوالیہ انداز میں ابرو اٹھاٸے۔
”نہیں۔۔۔میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا۔“ اس نے کندھے اچکاٸے۔
”میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تمہیں غلط سمجھا۔ مجھے سوچنا چاہیے تھا کہ ہر انسان کا دوستی نبھانے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔“ کچھ پل چپکے سے گزر گٸے تو اس نے خاموشی توڑی۔
”حالاں کہ میں نے ایک بار کہا تھا کہ اگر کبھی تمہیں لگے کہ میرے کسی عمل یا میری کسی بات پر تمہیں خفا ہو جانا چاہیے تو میری جانب سے وضاحت کا انتظار ضرور کرنا۔“ وہ نیامیہ کی ٹھٹھرتی لہروں کو دیکھتے ہوٸے سنجیدگی سے گویا ہوٸی۔
”ہاں مجھے یاد ہے میلانا! لیکن بعض معاملات میں ہمیں فوری وضاحت درکار ہوتی ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہو جاٸے تو اس کا اثر زاٸل ہو جاتا ہے۔“ اس نے اپنا نکتہٕ نظر بیان کیا تو میلانا نے سمجھتے ہوٸے سر ہلایا۔
ایک بار پھر سے خاموشی ان کے درمیان آن ٹھہری تھی۔
”تم نے کل جو کیا ہے۔۔۔“ وہ جو اس کے کل کے عمل کا شکوہ کرنے آٸی تھی کچھ کہتے کہتے رک گٸی۔
”کیا؟ میں نے کیا کیا ہے؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا تو وہ اسے دیکھتی رہ گٸی۔
”کچھ نہیں!“ وہ کنارے کنارے چلنے لگی تو وہ ساتھ ہو لیا۔
”کیا تم کسی ایبن کو جانتے ہو؟“ کچھ پل توقف کے بعد اس نے کچھ یاد آنے پر پوچھا تو واسل نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”ہاں۔۔۔نہیں، نہیں۔۔۔ہاں! میرا مطلب ہے کہ میں نے بس اس کے بارے میں سن رکھا ہے۔ تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو؟“ وہ الجھا۔
”کچھ نہیں۔۔۔کل رات میں اور رسلان ایک بار میں گٸے تھے۔ میں نے وہاں کچھ لوگوں کو گفتگو کرتے ہوٸے سنا جو اس کے بارے میں تھی۔“ میلانا نے بتایا تو اس نے سمجھتے ہوٸے سر ہلایا۔
”ہاں وہ منشیات فروشوں اور گیمبلرز کے خلاف کام کرتا ہے۔“ اس نے وہی بتایا جو وہ جانتا تھا۔
”میں ان کی باتیں سن کر تب سے تجسس میں مبتلا ہوں۔ بھلا اتنی مصروف زندگی میں کون لوگوں کے فاٸدے کے لیے ایسے اچھے کام کرتا ہے۔“ وہ واقعی متاثر ہو رہی تھی۔
”تو کیا تم اس کی تعریف سن کر اس کی فین بن گٸی ہو؟“ واسل اس کے بچپنے پہ ہنسا۔
”ہاں بالکل! کبھی موقع ملا تو میں اس سے ملنا چاہوں گی۔“ میلانا نے اعتراف کیا۔
”یہ لاٸٹر تمہارے پاس کیا کر رہا ہے؟ کیا تم سموکنگ کرنے لگی ہو؟“ واسل کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوٸے لاٸٹر پہ پڑی تو وہ چونکا۔
”ہاں؟ نہیں۔۔۔یہ؟ یہ کہاں سے آیا؟“ اس نے حیرت سے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوٸے لاٸٹر کو دیکھا۔ اس نے ایک نظر پلٹ کر کچھ دور جاتے شخص کو دیکھا جو کچھ پل پہلے ہی اس کے پاس سے گزرا تھا۔ اس کا لاٸٹر کب اس کے ہاتھ سے میلانا کے ہاتھ میں منتقل ہوا تھا اسے کچھ پتا نہیں چلا۔ واسل اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر سب سمجھ گیا۔ میلانا نے بے بسی سے شانے اچکاٸے تو وہ مسکرا دیا۔
*****
آج صبح سے اس کے سر میں درد تھا۔ اس کے ڈیوٹی آورز ختم ہو چکے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی آف ٹاٸمنگ کے ساتھ ہی دفتر بالکل خالی ہو جاتا تھا۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں مختلف اوقات میں کام جاری رہتا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے دکھتی کنپٹیوں کو انگلیوں کی پوروں سے دبایا اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔
شام اپنا رنگ بانٹنے میں لگی ہوٸی تھی۔ سر درد اس قدر شدید تھا کہ اس کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے مرکزی داخلی/خارجی راستے کی طرف جانے کی بجاٸے وہ غلطی سے دوسری جانب مڑ گٸی۔ الجھتی، جھنجھلاتی وہ بھٹکتی پھر رہی تھی۔ اس سے قبل کہ RMS میں داخل ہوتی وہ چونک کے ٹھہر گٸی۔ بے دھیانی میں وہ کہاں سے کہاں آ گٸی تھی۔ بی کے فارما کے اس حصے میں الگ داخلی و خارجی راستے ضرور تھے مگر مرکزی سٹاف مرکزی راستے ہی استعمال کرتا تھا۔ RMS پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے مناسب فاصلے پر تھا۔
وہ پلٹنے ہی لگی تھی جب قدرے فاصلے پر اسے سیاہ لباس میں ملبوس، آنکھوں تک آتی کیپس پہنے دو ہیولے تیزی سے کچھ اٹھاٸے زنگ آلود گیٹ سے داخل ہوتے دکھاٸی دیے۔ وہ دونوں اس حصے میں کچھ فاصلے پر بنے ایک ہال کے اندر غاٸب ہو گٸے۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک ہوا کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ پاٸی۔ دو لوگوں کے ہاتھوں میں جھولتی وہ چیز شاید کوٸی انسان تھا۔ شاید وہ کوٸی لڑکی تھی جس کے بال قدرے لمبے تھے۔
کچھ سوچ کر وہ اس جانب بڑھ گٸی۔ دروازہ غیر مقفل تھا تبھی اس کے چھوتے ہی دھیرے دھیرے کھُلتا گیا۔ داخلی دروازے میں کھڑی وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ ہال کافی بڑا تھا جس میں مختلف کارٹنز اور فالتو سامان بھرا پڑا تھا۔ ہال میں مختلف پارٹیشنز بنی ہوٸی تھیں۔ کہیں بوسیدہ ڈبے تھے تو کہیں دیو قامت کینز۔ اچانک اس کی نظر فرش پر پڑی۔ اس نے جھک کر اپنی انگلی سے اس مقام کو چھوا۔ چپچپا سرخ سیال تازہ تھا۔
وہ خون تھا۔۔۔!
وہ ایک دم گھبرا کے اٹھی اور خوف سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوٸے اپنی چیخ روکنے کے لیے ایک ہاتھ منہ پر رکھا۔ جلدی سے اپنی انگلی کو اپنی سفید جینز سے رگڑتے ہوٸے نیم تاریکی میں اِدھر اُدھر دیکھتی وہ آگے بڑھی۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کھوج پاتی بے دھیانی میں اس کا ہاتھ ایک درمیانے ساٸز کے نیلے کین سے ٹکرایا جس نے نیچے گر کر اس کی موجودگی کا اعلان کر دیا۔
”کون ہے وہاں؟“ ایک کرخت آواز نے اس کا خون خشک کر دیا۔
”میں کہتا ہوں وہاں کون ہے؟“ وہی آواز دوبارہ ابھری اور بنا کچھ سوچے سمجھے وہ دروازے کی سمت بھاگی۔
وہ اِدھر اُدھر اسے ڈھونڈ رہے تھے۔
”میرے خیال میں ہمیں باس کو بتانا چاہیے۔“ ایک سیاہ پوش نے مشورہ دیا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو۔“ دوسرے نے جلدی سے موباٸل فون نکالا۔
”باس! یہاں ایک مسٸلہ ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمیں یہاں کسی نے دیکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ کوٸی غیر متعلقہ شخص تھا تبھی بھاگ گیا ہے۔“ اس نے جلدی سے بتایا۔
”لعنت ہو تم لوگوں پر! گارڈز، سیکیورٹی سب کہاں مرے ہوٸے تھے جو عمارت کے کسی حصے میں کوٸی غیر متعلقہ شخص گھس گیا اور خبر تک نہیں ہوٸی۔“ دوسری جانب سے کوٸی دہاڑا تو اس نے بدمزگی سے موباٸل فون کان سے دور کیا۔
”باس ہو سکتا ہے کہ وہ کمپنی کا ہی کوٸی ملازم ہو جو RMS میں آیا ہو اور ہمیں دیکھ کر اس طرف آ نکلا ہو۔“ اس نے کچھ سوچتے ہوٸے کہا۔
”مجھے دیکھنے دو!“ اس نے غصے سے کہہ کر کال بند کی۔
اسے پسینہ آ رہا تھا۔ اپنے قدموں کی لرزش اس پر واضح تھی۔ بڑی مشکل سے خود کو پُرسکون کرتی وہ دفتر سے دور نکل جانا چاہتی تھی۔
وہ دفتر کے مرکزی خارجی راستے پر پہنچی ہی تھی کہ سامنے کھڑے جنرل مینجر میخاٸل سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
”میں معذرت چاہتی ہوں سر!“ اس نے جلدی سے کہا۔
”کوٸی بات نہیں!“ میخاٸل نے اپنی نظروں سے اسے سکین کرنا شروع کیا۔
”کیا تم ٹھیک ہو؟“ وہ اسے کچھ دیر روکنا چاہتا تھا۔
”جج۔۔۔جی سر! میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے بمشکل تھوک نگلتے ہوٸے جواب دیا۔
بھاگ کر آنے سے اس کی سانس بری طرح پھول چکی تھی۔
میخاٸل کی نظریں اس کی سفید جینز پر جم گٸی تھیں جہاں ایک لمبا سا سرخ دھبا تھا۔ اپنی انگلی کو جینز سے صاف کرتے ہوٸے اس نے بے دھیانی میں شاید کوٸی غلطی کر دی تھی۔
”تم کس ڈیپارٹمنٹ سے ہو؟“ اسے غور سے دیکھتے ہوٸے میخاٸل طنزاً مسکرایا۔
”مم۔۔۔میں ویرا ہوں سر! میں پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے ہوں۔ ابھی میں گھر جا رہی ہوں۔“ اس نے گلے میں پہنا کارڈ سامنے کیا۔ وہ اس کی تفتیش سے گھبرا رہی تھی۔
”ہاں، ہاں ضرور جاٶ! میں بھی RMS تک جا رہا تھا۔“ اس نے گہری نظروں سے ویرا کو دیکھتے ہوٸے کہا جس کا رنگ RMS سنتے ہی فق ہو گیا تھا۔
”باٸے سر!“ ویرا جلدی سے کہہ کے باہر نکل گٸی۔
”الوداع ویرا!“ میخاٸل نے مسکراتے ہوٸے کہا اور جیب سے اپنا موباٸل فون نکالا۔
”سنو! اس کا نام ویرا ہے اور وہ پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس نے کچھ سنا ہے نہ ہی کچھ دیکھا ہے۔ کسی کو اس پر نظر رکھنے کے لیے کہو! اگر وہ خاموش رہے تو اس کی جان بخش دینا۔“ اس نے کان کی لو کھجاتے ہوٸے کہا۔
”اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو یاد رکھنا کہ اس کی جان ہماری ساکھ سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔“ اس کا لہجہ حد درجہ سفاک تھا۔
آفس سے ٹرام اسٹیشن اور ٹرام اسٹیشن سے اپنے فلیٹ تک کا سفر اس نے کانپتے ہوٸے، پسینہ پونچھتے ہوٸے طے کیا تھا۔ اس دوران اسے اپنا سر درد بھول چکا تھا۔ وہ بار بار پلٹ کر دیکھتی تو یوں لگتا جیسے کوٸی اس کے تعاقب میں ہے۔
شاید وہ کوٸی شخص تھا۔۔۔!
شاید وہ کوٸی سایہ تھا۔۔۔!
شاید وہ کوٸی سیاہ ہیولا تھا۔۔۔!
یا پھر شاید وہ موت تھی جو اس شب ویرا کے تعاقب میں تھی!
*****
(جاری ہے)