0

ناول: طپش مصنفہ: ماہم حیا صفدر قسط نمبر: 05


ناول: طپش
مصنفہ: ماہم حیا صفدر
قسط نمبر: 05

یونیورسٹی کا یہ حصہ کافی پرسکون اور خاموش سا تھا۔ گھنے سبز درختوں کی چھاٶں کسی بھی آبلہ پا کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اس حصے میں بھی جوان درختوں کی سبزگی نے منظر کو چار چاند لگا رکھے تھے۔ کشادہ سرخ سیڑھیاں آنے والوں کو کسی جنت کے ٹکڑے میں لا چھوڑتی تھیں جہاں امن و سکون کی فراوانی تھی۔ سیڑھیوں کے داٸیں طرف پست قامت پتھریلی دیوار کے سر پر کسی تاج کی طرح سجا لکڑی کا ایک خوب صورت جنگلا تھا جو اوپروی حصے کو اس نچلے قطعے سے کاٹ کے جداگانہ حیثیت بخشتا تھا۔ جنگلے کے نیچے دیوار کے ایک حصے سے ٹھنڈے میٹھے پانی کی آمد کا راستہ بنا ہوا تھا جو چھوٹے بڑے پتھروں سے گزرتا کسی پہاڑی کے سینے کو چیرتی آبشار کا چربہ لگ رہا تھا۔ ایک چھوٹے سے تالاب نما رقبے پہ پانی نے اپنی حدود بنا رکھی تھیں جس کے اردگرد ہر ساٸز کے پتھر پڑے تھے۔ آٸینہ نما شفاف پانی کی سطح پر ہوا کے گداز جھونکے ارتعاش پیدا کرتے تو یوں لگتا گویا سبز درختوں نے مجذوبین کا روپ دھار لیا ہو اور اب عالمِ وجد میں رقصاں ہوں۔
اس وقت یہاں گہری بھید بھری خاموشی تھی جب وہ تینوں اپنے ہمراہ موٹے ازبک لڑکے کو لیے وہاں وارد ہوٸے۔ یہ واسل کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ان کا یہ لیکچر فری تھا اس لیے وقت گزاری کی غرض سے یہاں آ گٸے۔ پتھریلی نشستیں سنبھالتے ہوٸے انہوں نے اپنے بیگز پاس رکھ لیے۔ وہ واسل کے عین سامنے بیٹھی تھی جب کہ اس کے پہلو میں محمد داٶد تھا جسے بیٹھنے کے لیے دو پتھروں کو باہم ملانا پڑا تھا۔ ان سب کے برعکس وہ ہر وقت یوں سجا سنورا پایا جاتا تھا جیسے وہ یونیورسٹی میں نہیں کسی شادی کی تقریب میں شریک ہو۔ ابھی بھی پھنسی پھنسی سیاہ جینز، سرخ شرٹ، سیاہ جوگرز، سیاہ سن گلاسز، گلے میں ڈھیر ساری سونے چاندی کی چینز اور انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہننے کے علاوہ دونوں کلاٸیوں پہ گھڑیاں باندھے وہ کافی لدا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ ان کا اچھا دوست نہیں تھا مگر کلاس فیلوز ہونے کے باعث اکثر فارغ لیکچرز میں ان کے ساتھ پایا جاتا۔
واسل کے پہلو میں بیٹھا ارون کافی ڈل لگ رہا تھا۔ آخر ہفتہ ہونے کو آیا تھا اور ویرا نے اس سے معذرت نہیں کی تھی۔ وہ چاہتی تو میلانا سے اس کا نمبر لے کر رابطہ کر سکتی ہے مگر شاید اسے اپنے کیے پر کوٸی شرمندگی نہیں تھی۔
”ہیومنٹیز پڑھنا کسی طرح بھی تفریح سے کم نہیں ہے۔“ میلانا نے اپنا بیگ اٹھا کے گود میں رکھتے ہوٸے گفتگو کا آغاز کیا۔
”اور وہ کیسے؟“ واسل نے دلچسپی سے پوچھا۔
”اس سے ہمیں اپنے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ہم تاریخ، مذاہب، انسان، ارتقا، ساٸیکالوجی اور انسانوں سے جڑی دیگر کتنی ہی چیزوں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ میں تو کبھی کبھی پرانے ادوار کے بارے میں پڑھتے پڑھتے ان میں کھو سی جاتی ہوں کہ ہزاروں سال پہلے لوگ کیسے رہتے تھے۔“ وہ پرجوش تھی۔
”یہ بات تو ہے۔ مجھے بھی ان سب چیزوں سے بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔ مجھے گزشتہ اور آٸندہ کو کھوجنا بہت پسند ہے۔“ ارون نے بھی گفتگو میں حصہ لیا کہ یہ تو اس کا پسندیدہ موضوع تھا۔
”ہاں بالکل! ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے کیسے اتنا طویل سفر کیا۔ مجھے خود یہ سب بہت مسحور کن لگتا ہے کہ۔۔۔“
”ہنہہہ! تم لوگوں کی عقل پر افسوس ہے کہ تمہیں وہ جہالت کا دور فیسینیٹ کرتا ہے۔ وہ دور جب انسان جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا اور اسے نہ کھانے کی تمیز تھی نہ پہننے کی حتیٰ کہ جینے کے اصل مقصد اور طریقے سے ہی ناواقف تھا۔ ہمیں تو شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہم آج ایک جدید اور ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں۔“ داٶد نے واسل کی بات کاٹتے ہوٸے طنزیہ لہجے میں کہا تو ان تینوں کے منہ حیرت سے کھل گٸے۔
”کیا؟ تم یہ سب کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک چند ہزار سال قبل کا انسان بے عقل اور بدتہذیب تھا؟“ واسل کو یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں بالکل! آج ہم جدید دور میں رہ رہے ہیں۔ تعمیرات، ملبوسات، آلات کے نادر نمونے دیکھو! طب اور تعلیم سمیت تمام شعبہ ہاٸے زندگی میں جو انقلاب برپا ہوا ہے بلاشبہ یہ اس صدی کے انسانوں کی محنت، عقل اور ذہانت کے ہی مرہونِ منت ہے جنہوں نے انسان کو جدید اور مہذب انسان بنایا ہے۔“ اپنے تٸیں داٶد نے بہت ٹھوس دلاٸل پیش کیے تھے۔
”مجھے یہ جان کر افسوس ہو رہا ہے داٶد کہ تم نے تاریخ کو پڑھا ہی نہیں۔ اور اگر پڑھا بھی ہے تو تعصب کی ایسی عینک لگا کر جو تمہیں آج کے انسان کو ہی انسان دکھاتی ہے۔“ ارون نے افسوس سے کہا۔
”ارتقا کا عمل چند سالوں یا چند صدیوں پر محیط نہیں ہوتا۔ بلاشبہ انسان نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بڑی مشقت کی ہے۔ اور تم جن ایجادات کو آج کے انسان کی ذہانت کا نتیجہ قرار دے رہے ہو انہیں بھی بنیاد کل کے انسان نے ہی بخشی ہے۔ جیسے بنا بنیاد کے کوٸی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی اسی طرح کسی بھی علم یا ایجاد کی بنیاد بھی ضروری ہوتی ہے۔“ میلانا نے سنجیدگی سے اضافہ کیا۔
”تم لوگ جو بھی کہو، میں نہیں مانتا کہ ہزاروں سال پہلے کا انسان آج کے انسان سے زیادہ مہذب اور باشعور تھا۔“ داٶد نے ڈھٹاٸی سے کندھے اچکاٸے۔
”تم اپنی جگہ ٹھیک ہے داٶد! تم وہ سب کہہ رہے ہو جو تمہیں بتایا گیا ہے یا جو تم نے سوچا۔ اگر آج کا انسان اپنے اجداد کو کمتر، غیر مہذب اور بےعقل سمجھتا ہے تو اس میں اُس کا کوٸی قصور نہیں ہے۔ یہ وہ مجرمانہ سوچ ہے جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے ذہنوں میں اتاری گٸی ہے۔ تم کہتے ہو کہ تم نہیں مانتے کہ ہزاروں سال پہلے کا انسان زیادہ مہذب تھا۔ تم نے کہا آج کی تعمیرات کا کوٸی مقابلہ نہیں۔ تم نے کہا پہلے انسان غیر مہذب تھا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کیا تم نے تاریخ میں مصر اور سندھ کی تہذیب نہیں پڑھی؟ کیا تم نے تب کے انسان کے کھیتی باڑی کرنے، طرح طرح کی اجناس اگانے کے بارے میں نہیں پڑھا؟ کیا تم نے کہیں بھی یہ نہیں پڑھا کہ ہزاروں سال پہلے کا انسان اتنا قابل تھا کہ جو کام آج کا انسان مشینوں سے لے رہا ہے وہ خود کرتا تھا۔ ملبوسات کی کیا بات ہو کہ اس دور کے انسان نے ریشم و اطلس اور کتنے ہی قیمتی کپڑوں کے ملبوسات پہنے ہیں۔ جو لوگ ہزاروں سال پہلے سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتے تھے، ہیرے جواہرات اور قیمتی دھاتوں کا استعمال کرتے تھے وہ کیسے جنگلی اور رہن سہن کے طریقوں سے نابلد ہو سکتے ہیں؟ کیا تم نے یونان کی حکمت کے بارے میں نہیں پڑھا؟ کیا قیمتی پتھروں اور دھاتوں کے بنے محلوں میں رہنے والے ناسمجھ تھے کہ جن کی تعمیرات کی باقیات پہ آج کی سیاحت کی عمارت قاٸم ہے۔ کیا تم نے فنِ تعمیرات میں کہیں اہرامِ مصر، شداد کی جنت یا دیگر تعمیرات کے بارے میں نہیں پڑھا؟ کیا آج کا کوٸی بھی معمار، کوٸی بھی انجینیٸر ویسے نادر تعمیراتی نمونے بنا مشینوں کا سہارا لیے بنا سکتا ہے؟ بلکہ میرا دعویٰ ہے کہ آج کا انسان مشینوں سے بھی ویسی تعمیرات نہیں کر سکتا۔“ واسل بولنے لگا تو بولتا ہی چلا گیا۔
”یہ مت کہو داٶد کہ تم کچھ نہیں جانتے۔ تم کیا ہم سب جانتے ہیں مگر ہم ماننا نہیں چاہتے۔ آج کے انسان کی کھوکھلی انا اسے یہ بات ماننے سے باز رکھتی ہے کہ پہلے کا انسان اس سے زیادہ طاقتور، باشعور، مہذب اور باعلم تھا۔ کچھ ہے جو ہمیں کسی ایسے احساس میں مبتلا رکھتا ہے جس کی تسکین ہم خود سے پچھلوں کو چھوٹا اور برا دکھا کر کرتے ہیں۔ اس جدید دور میں موباٸل، کمپیوٹرز، فلم اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری غرضیکہ ہر شعبے میں کمیرے کا کیا کردار ہے ہم سب جانتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ کیمرہ کس نے ایجاد کیا تھا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ سرجریز اور طب میں کون کون لوگ سرِفہرست کہ آج تک ان کے ہی بتاٸے گٸے طریقے مزید راہیں کھول رہے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ کیمیا، حساب، طبیعات و دیگر علوم کہاں سے آٸے ہیں اور وہ لوگ کس صدی کے تھے؟“ اس نے ایک تاسف بھری نظر داٶد پہ ڈالی تو وہ شرمندہ ہوا۔ ارون اور میلانا نے ستاٸش بھری نظروں سے واسل کو دیکھا۔
”ہاں ایک بات میں اور کہنا چاہوں گا کہ میں انسانیت کو فاٸدہ پہنچانے والے ہر علم اور صاحبِ علم کا پرستار ہوں۔ میں علوم پر مذہب کا ٹھپہ لگانے کے حق میں نہیں ہوں۔ خواہ آج کی تاریخ اسے کچھ بھی دکھاٸے میں اپنے نقطہٕ نظر سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اس بات کا اقرار کرنے میں مجھے کوٸی عار نہیں ہے کہ جتنی تاریخ میں نے پڑھی ہے ہر فن، ہر علم اور ہر میدان میں مسلم ناموں کو سرِفہرست پایا ہے۔ مگر افسوس کہ تم لوگ ایسے احساسِ کمتری کا شکار ہو کہ اپنے ہیروز کو اون ہی نہیں کرتے۔ تم لوگ خود کو اون ہی نہیں کرتے۔“ واسل کے لہجے میں سچاٸی تھی۔
اس کی بات سن کر داٶد کا سینہ چوڑا ہوا کہ اپنی قوم کی تعریف کسے بری لگتی ہے۔ اس کے ہونٹ کھل اٹھے اور آنکھیں چمک اٹھیں۔
”تم لوگ بالکل اسی طرح اپنے آپ کو اور اپنی تاریخ کو اون کیا کرو! اور آج کے بعد کم از کم میرے سامنے مت کہنا کہ ہزاروں سال پہلے انسان میں تہذیب اور شعور نہیں تھا۔“ واسل نے انگلی اٹھا کر کہا تو اس کا منہ لٹک گیا۔
”میرے فرشتوں کی بھی توبہ کہ میں دوبارہ کسی فری لیکچر میں اتنا لمبا لیکچر سننے کی غلطی کروں۔“ داٶد نے معصومیت سے کہتے ہوٸے کانوں کو ہاتھ لگایا تو سب کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔
تبھی میلانا کے بیگ میں تھرتھراہٹ ہوٸی۔ اس نے موباٸل فون نکال کے دیکھا تو سکرین پہ ”ویرا کالنگ“ لکھا آ رہا تھا۔
”ویرا کی کال؟ اسے کیا کام پڑ گیا؟“ وہ کال ریسیو کرتے ہوٸے بڑبڑاٸی تو ارون کی دھڑکنیں کان بن گٸیں گویا وہ اس سے بات کرنے لگی ہو۔
”کیا؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟“ میلانا ایک دم چلا کے اٹھی تو اس کا بیگ زمین بوس ہو گیا۔
واسل اور ارون نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب کھڑی دوسری جانب سے دہراٸی گٸی بات سن رہی تھی۔ داٶد نارمل انداز میں بیٹھا تھا کہ وہ نہ ویرا کو جانتا تھا نہ اسے دلچسپی تھی۔
”او خدا! میں بہت خوش ہوں ویرا! سچ میں میں نے تمہارے لیے دعا کی تھی۔“ جوش سے کہتی گول گول گھومتی وہ خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ واسل کی آنکھیں اس کی ایڑیوں کے ساتھ ساتھ رقص کر رہی تھیں۔
”ویرا کی جاب کنفرم ہو گٸی ہے۔ اسے اس کی پسندیدہ کمپنی میں جاب مل گٸی ہے۔ او خدا! میں اس کے لیے بہت خوش ہوں۔“ کال بند کر کے یونہی گھومتے ہوٸے اس نے کہا تو وہ دونوں اسے دیکھتے ہوٸے مسکرا دیے جو اپنی دوست کی خوشی میں خوش ہوتی بچی بنی ہوٸی تھی۔
”مجھے ابھی اس کے پاس جانا ہے۔ تم دونوں بھی میرے ساتھ چلو! ہم پارٹی کرتے ہیں۔ میں ویرا کو میسج کرتی ہوں کہ وہ ہمارے لیے کافی کا انتظام کرے۔“ اس نے واسل اور ارون کو مخاطب کیا تو ارون گھبرا کے اٹھ کھڑا ہوا۔
”نن۔۔۔نہیں۔۔۔اس کی کیا ضرورت ہے؟ پھر کبھی سہی۔ ابھی ہمیں اگلی کلاس میں جانا چاہیے۔“ اب تو اسے کافی کے نام سے ہی وحشت ہونے لگی تھی۔
”لیکن ارون! ہمیں اسے مبارکباد دینے جانا چاہیے۔“ واسل نے کھڑے ہوتے ہوٸے کہا تو اس نے لاچاری سے نیا بہانہ سوچنے کے لیے ذہن پر زور ڈالا۔ مگر دل نہیں مانا جو اسے خوش دیکھنے کی ضد کر رہا تھا۔
”تم نے ٹھیک کہا۔ ہمیں ابھی جانا چاہیے۔ یہ موٹ۔۔۔میرا مطلب ہے داٶد نوٹس بناٸے گا تو کل ہم اس سے کاپی کر لیں گے۔“ میلانا نے جوش سے کہا تو داٶد کا منہ بن گیا۔
وہ دونوں بیگز اٹھاتے سیڑھیوں کی جانب چل دِیے۔
”کوٸی مجھے بھی اٹھا کے جاٸے!“ داٶد نے اٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوٸے کہا تو میلانا نے پلٹ کے دیکھا جو ان دونوں کے پیچھے ہو لی تھی۔
”اوہو۔۔۔تم بھی نا! اٹھو! ہمت کرو، کچھ خود بھی زور لگاٶ!“ میلانا اس کا ہاتھ پکڑتے ہوٸے کھینچ رہی تھی۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا تو میلانا نے اپنی سانسیں بحال کرتے ہوٸے اسے گھورا۔
”خدا کے لیے اپنی جسامت کا کچھ کرو ورنہ تمہارے یہاں داخلے پہ پابندی لگ سکتی ہے کہ تم کسی بھی چیز کو ایک پل میں روندنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔“
اس کی بات پر وہ ڈھٹاٸی سے ہنس دیا تو وہ اپنی سانسیں بحال کرتی دوڑ گٸی۔
اب وہاں پھر سے خاموشی نے ڈیرے جما لیے تھے جہاں داٶد اپنے ایک ہاتھ کی انگوٹھیاں گنتا شش و پنج میں مبتلا کھڑا تھا جن میں سے بیشتر غاٸب تھیں۔
*****
وہ مشترکہ کمرے کی بجاٸے ساتھ والے کمرے میں بیٹھے تھے۔ یہ کمرہ ویرا کے والدین کا تھا۔ ویرا تب دس سال کی تھی جب اس کا باپ کثرتِ شراب نوشی کے باعث جگر کے عارضے میں مبتلا ہوا اور جانبر نہ ہو سکا۔ وہ ایک ٹیکسی ڈراٸیور تھا۔ اس کی وفات کے بعد ویرا کی ماں نے ٹیکسی چلانا شروع کی اور ویرا کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ گزشتہ سال اس کی ماں بھی اسے داغِ مفارقت دے گٸی تو اس نے ٹیکسی بیچ دی۔ اس کمرے سے اس کی ماں کی یادیں جڑی تھیں اس لیے وہ یہاں کسی کو داخل نہیں ہونے دیتی تھی۔ دو دن قبل میلانا کی بدانتظامی اور اسے ٹانگیں مار مار کے پلنگ سے نیچے گرانے کی عادت سے عاجز آ کر اس نے اپنا سامان یہاں منتقل کر لیا تھا۔ پہلے کمرے کی نسبت یہ قدرے کشادہ تھا جس کی ایک دیوار کے ساتھ پلنگ تھا۔ پلنگ کے داٸیں جانب ایک چھوٹی سی ڈریسنگ میز تھی جس کے ساتھ ہی ایک تین سیٹر صوفہ تھا۔ باقی کمرہ خالی تھا۔ فرش پر اڑی اڑی رنگت والا نفیس سا دبیز قالین تھا جس پر پلنگ کی پاٸنتی دیوار کے ساتھ ایک میٹرس رکھ کے فرشی نشست بناٸی گٸی تھی۔ وہ اس وقت نیچے ہی بیٹھے تھے۔ میلانا دیوار سے ٹیک لگاٸے یوں چپکی ہوٸی تھی جیسے ابھی دیوار کا ہلکا نیلا پینٹ اپنی پشت سے کھرچ ڈالے گی۔ ویرا اس کے برابر ہی بیٹھی تھی۔ جب کہ واسل اور ارون ان کے سامنے قدرے فاصلے پر موجود تھے۔ ان کے درمیان کافی، پین کیکس اور سنیکس کے خالی برتن پڑے تھے۔
میلانا کے کہنے اور دل کے مجبور کرنے پہ وہ آ تو گیا تھا مگر اب غبارے کی طرح منہ پھلاٸے بیٹھا تھا۔ انہیں آٸے گھنٹہ بھر ہونے کو تھا مگر ایک مرتبہ بھی ارون نے دانستہ آنکھ اٹھا کے ویرا کو نہیں دیکھا تھا۔ واسل اور میلانا کے برعکس اس نے سادگی سے پرتکلف انداز میں اسے مبارک باد اور نیک تمناٸیں پیش کی تھیں۔ اور تو اور اس نے ویرا کی پیش کی گٸی کافی پر سادہ پانی کو ترجیح دی تھی۔ اس کی بے نیازی و بے رخی ویرا کو کھٹک رہی تھی جبھی گاہے بگاہے نظر اٹھا کر اسے سنجیدہ بیٹھے دیکھ کر دل ہی دل میں افسردہ ہو رہی تھی۔
”ویرا! میری پیاری دوست! اب تم یقیناً ایک اچھی جاب پانے کے بعد امیر ہو جاٶ گی۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اب اگر میں تمہیں کرایہ معافی کی درخواست دوں تو تمہیں قبول کرنے میں کوٸی عار نہیں ہو گی۔“ میلانا کی خوشی کا کوٸی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔
”ہاں تم تو یوں کہہ رہی ہو جیسے مجھے BK Pharma میں جاب نہ ملی ہو وہاں کی مالکن بنا دیا گیا ہو۔“ ویرا نے ماتھے پہ داٸیں ہاتھ کی ہتھیلی مارتے ہوٸے گویا میلانا کی عقل پہ ماتم کیا تھا۔
”ویسے مالکن بننا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ تم ارادہ کر لو تو جھٹ میں ممکن ہو جاٸے گا۔“ واسل نے شرارت سے ارون کو دیکھتے ہوٸے ذومعنی انداز میں کہا۔
ارون کا دل چاہا دوست کی بلاٸیں لے لے جس نے اتنی آسانی سے اسے وہ راہ سجھاٸی تھی جس پہ وہ منتظر کھڑا تھا۔
”کیا مطلب؟ تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“ ویرا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”نن۔۔۔کچھ نہیں! میرا مطلب ہے کہ انسان کی قوتِ ارادی کے سامنے کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔“ واسل نے جلدی سے بات بناٸی۔
”یہ تو ہے مگر کسی بھی مقام پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔“ ویرا نے سنجیدگی سے کہا تو واسل نے سر ہلایا۔
”کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقام و مرتبہ دیکھ کر ہمیں رشک آتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اس کے پیچھے ان کی کتنی ہی نسلوں کی محنت ہو گی۔ لیکن اس کے برعکس درحقیقت ان کی کامیابی کے محل کتنی ہی نسلوں اور کتنے ہی انسانوں کی بربادی کے لاشے پر تعمیر ہوتے ہیں۔“ میلانا نے سامنے والی دیوار کو گھورتے ہوٸے سنجیدگی سے کہا تو سب نے تاٸیدی انداز میں سر ہلایا۔
”تم نے درست کہا۔ اکثر اچانک ملنے والی کامیابیوں کے پیچھے محنت کی بجاٸے دیگر عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔“ واسل نے انگلیاں مروڑتے ہوٸے ایک گہری سانس خارج کی۔
”تم لوگ باتیں کرو! میں ذرا یہ برتن سمیٹ لوں۔“ ویرا کا دھیان بار بار بھٹک رہا تھا کہ اسے گندگی اور پھیلاوے سے شدید کوفت ہوتی تھی۔
”کیا تم یہ برتن کچن تک لے جانے میں میری کچھ مدد کرو گے؟“ ویرا نے دونوں ہاتھوں میں ٹرے تھامتے ہوٸے اسے براہِ راست مخاطب کیا جس کا دل بھلے باغ باغ ہو گیا ہو مگر منہ کے غبارے سے ہوا نہیں نکلی۔
”ہاں ارون! جاٶ، جاٶ! تمہیں ویرا کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ یہ ڈھیر سارے برتن اکیلی نہیں لے جا پاٸے گی۔“ میلانا نے شرارت سے مسکراہٹ چھپاتے ہوٸے اسے کہا تو وہ اسے گھورتا ہوا پلیٹیں پکڑے اس کے پیچھے ہو لیا۔
”کیا یہ دونوں ناراض ہیں؟“ وہ جونہی کمرے سے نکلے تو واسل نے میلانا کو مخاطب کیا۔
”دراصل اس دن جب تم لوگ میری عیادت کے لیے آٸے تھے تو۔۔۔“ میلانا اسے تفصیل سے وہ سب بتانے لگی جو ویرا نے احساسِ شرمندگی سے مغلوب ہو کر اسے بتایا تھا۔
”سنو!“ وہ پلیٹیں سلیب پر رکھ کے سستی سے پلٹا ہی تھا کہ ویرا نے اسے آواز دی۔
بنا پلٹے وہ وہیں رک گیا تو وہ متذبذب کھڑی انگلیاں چٹخانے لگی۔
”میں تم سے اس دن کے لیے معذرت چاہتی ہوں۔ دراصل میرا تمہیں تنگ کرنے کا کوٸی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے کبھی کسی کے ساتھ ایسا نہیں کیا مگر پتا نہیں اس دن میں نے وہ بیوقوفی کیوں کی۔ میں معذرت چاہتی ہوں کہ تمہیں برا لگا۔“ جلدی جلدی بولتی وہ نروس ہو رہی تھی۔
ارون گھڑی والے کا دل تو بلیوں اچھل رہا تھا مگر رکھاٶ بھی ضروری تھا۔
”کوٸی بات نہیں۔ میں بھی تم سے معذرت چاہتا ہوں۔“ بنا پلٹے سنجیدگی سے جواب دیتا وہ کافی فلمی لگ رہا تھا۔
”تم کس لیے معافی چاہتے ہو؟“ ویرا نے الجھ کر اس کی پشت کو دیکھا۔
”آج دوبارہ تمہارے سامنے آنے کے لیے! تمہیں میری موجودگی بری لگتی ہے، میرا دیکھنا برا لگتا ہے۔۔۔“
”نن۔۔۔نہیں۔۔۔میں نے کب کہا کہ مجھے برا لگتا ہے؟“ ویرا نے جلدی سے اس کی بات کاٹی تو وہ پلٹ کر اس کے عین سامنے آ گیا۔
”کیا واقعی؟“ بھوری آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
”کیا؟“ وہ اس کی موجودگی میں پزل ہو رہی تھی۔
”کہ تمہیں میری موجودگی یا میرا دیکھنا برا نہیں لگتا۔“ اب وہ اس کے چہرے پہ پھیلے ناآشنا رنگوں سے حظ اٹھا رہا تھا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہو ہے۔ ہٹو یہاں سے، مجھے برتن صاف کرنے ہیں۔“ اس کے وجود سے اٹھتی مہنگے پرفیوم کی خوشبو اسے مزید حواس باختہ کر رہی تھی۔ اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے دھکیلتی وہ سنک کی جانب بڑھی تو وہ اک ادا سے اسی مقام پہ اپنا ہاتھ رکھ کے پلٹ گیا۔
برتن دھوتے ہوٸے اس کے ہاتھوں میں لرزش واضح تھی۔
”لوفر انسان!
آوارہ شخص!
نظر باز آدمی!“
اسے مختلف القابات سے نوازتی وہ جلدی جلدی اپنا کام سمیٹ رہی تھی۔ جب کہ ارون کے چہرے پہ پھیلے رنگوں کو دیکھ کر میلانا اور واسل نے ذومعنی انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا۔
*****
رات منسک کو اپنی آغوش میں لیے اندھیرے کی لوری سنا رہی تھی۔ ایسے میں ان کے تہ خانے میں جلتی سرخ بتی ان کی شب بیداری کی گواہ تھی۔وہ اب سنجیدگی سے اس کام کے پیچھے پڑنے والے تھے یا پڑ چکے تھے کہ کون ہے جو اس شہر میں کسی بھی وقت لڑکیوں کو اغوا کر رہا ہے۔ وہ جلد از جلد اس گھناٶنے کردار تک پہنچ کر اس کا پردہ فاش کرنا چاہتے تھے جس کا مقصد بھی وہ ابھی تک جان نہیں پاٸے تھے۔
”نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے اور اب تک کتنی معصوم عورتیں شکار بن چکی ہیں۔“ ایبن نے بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوٸے کہا۔
”ہمارے پاس اس سلسلے میں بہت کم ڈیٹا ہے۔زیادہ تر مغوی عورتیں وہ ہیں جن کے بارے میں پولیس میں اگر درخواست دی بھی گٸی تو ان کیسز میں مدعیان کی دلچسپی ہی دکھاٸی نہیں دی۔ کیوں کہ ان میں سے بہت کم لڑکیاں ایسی تھیں جن کے مدعیان ان کے سگے رشتہ دار ہوں۔“ سیم نے کہا۔
”اور ایک بات کہ زیادہ تر لڑکیاں یتیم و لاوارث ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کی عمر پندرہ سال سے زیادہ اور پنتالیس سال سے کم ہے۔“ زہوک نے اضافہ کیا تو وہ ٹھہر گیا۔
”ابھی ہمارے پاس صرف پندرہ عورتوں کا ڈیٹا ہے جس کے مطابق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پیچھے جو بھی شخص ہے وہ انتہاٸی شاطر ہے۔ اس درجہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود کوٸی اس تک پہنچ نہیں پایا۔ نہ جانے کتنی ہی ایسی عورتیں بھی ہوں گی جن کی گمشدگی کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوٸی ہو۔“ ایبن نے مٹھیاں بھینچیں۔
”ہو سکتا ہے کہ اسے کسی طاقتور محکمے یا طاقتور شخص کی پشت پناہی حاصل ہو۔“ سیم نے کہا تو وہ ٹھٹھکا۔
”سیم کیا تمہیں یاد ہے کہ جب تمہاری بیوی۔۔۔“ روانی میں بولتا ہوا وہ رک گیا کہ وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔
“تم بولو ایبن!“ اس نے ایک گہری سانس خارج کی۔
”کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ کیس بھی ایسا ہی تھا؟ کیا کوٸی بھی کڑی ایسی ہے جو ان واقعات سے ملتی ہو؟“ اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا گویا نرمی سے پوچھنے پر اسے تکلیف کم ہو گی۔
”میرا نہیں خیال کہ ان میں کوٸی بھی مماثلت ہو۔ میری بیوی اپنی ایک سہیلی سے ملنے یہاں آٸی تھی۔ اس کی لاش اگلی صبح وکٹری پارک کے قریب سے برآمد ہوٸی تھی۔ اس کی سہیلی کا کہنا تھا کہ وہ دس بجے اس کے فلیٹ سے نکل گٸی تھی جب کہ عمارت کے سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج نے اس کی بات کی تاٸید کی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس کی موت رات بارہ بجے دم گھٹنے کے باعث ہوٸی تھی۔ انہیں اس کے اغوا کے شواہد کہیں نہیں ملے۔ یہاں تک کے وہ پارک کے پاس کیسے اور کیوں پہنچی کچھ علم نہ ہو سکا۔ جب کہ یہ بات صرف میں جانتا ہوں کہ اسے اغوا کیا گیا تھا۔ اسے مارا گیا تھا۔ اس کا آخری میسج جو اس نے ساڑھے دس بجے کیا تھا ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ مگر اس کی موت کا سبب نارمل ایستھما اٹیک قرار دیا گیا کیونکہ وہ ان ہیلر اپنی سہیلی کے گھر بھول آٸی تھی۔ کاش میں اس رات شراب نہ پیتا! کاش میں اس وقت اس قدر مدہوش نہ ہوتا! کاش میں اس کا میسج وقت پر دیکھ پاتا!“ اس کا لہجہ بھیگ چکا تھا۔ زہوک اور ایبن نے افسوس سے اسے دیکھا جو خود کو اپنی بیوی کا قاتل قرار دیتے ہوٸے گلٹ میں مبتلا رہتا تھا۔
اس کے بعد اس نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ وہ اکثر اس کا آخری میسج دیکھتا اور خود کو ملامت کرتا۔ اس نے لکھا تھا;
”سیم! میں ٹرام اسٹیشن سے دور ہوں۔ کچھ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ مجھے ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔ مجھے بچاٶ سیم!“
”خود کو قصوروار مت ٹھہراٶ سیم! یہ سب ایسے ہی ہونا تھا۔“ زہوک نے نرمی سے کہا۔
”میرے اسی گلٹ نے، اسی خوف نے مجھے یہ بات پولیس سے چھپانے پر مجبور کیا۔ اسی لیے میں نے کسی بھی قسم کی مزید کارواٸی کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا اور اسے ایک نارمل موت مان لیا۔ میں ڈر گیا تھا کہ جب وہ پوچھیں گے تب میں کہاں تھا جب میری بیوی نے مجھے مدد کے لیے بلایا تھا تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں نے اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا۔ میں نے تمہارے علاوہ کسی کو یہ سب نہیں بتایا۔ لیکن اکثر میرا گلٹ میری حلق میں پھانس بن کر اٹک جاتا ہے کہ میں نے اس کے حصے کا انصاف ہڑپ لیا۔“ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے تھے۔
”سیم۔۔۔سیم! پرسکون ہو جاٶ! ہو سکتا ہے کہ اس کا پیچھا کرنے والے عام چور اچکے ہوں جنہیں اس کے قیمتی موباٸل فون سے یا پیسوں سے غرض ہو۔ ہو سکتا ہے وہ پینک ہو گٸی ہو اور ایستھما اٹیک اس کی جان لے گیا ہو۔“ ایبن نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوٸے اسے تسلی دی۔
”ہاں! ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا موباٸل فون اور پرس اس کی لاش کے ساتھ برآمد نہیں ہوا تھا۔ اسی لیے وہ ایک معمولی چوری کا واقعہ ہی تھا۔“ سیم نے یوں کہا جیسے خود کو یقین دلا رہا ہو۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسے چوری کا واقعہ بنا دیا گیا ہو۔“ زہوک نے سنجیدگی سے کہا تو وہ دونوں چونکے۔
”کیا مطلب؟ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“ ایبن اس کی طرف پلٹا۔
”دیکھو! ممکن ہے کہ انہوں نے اسے اسی مقصد کے لیے اغوا کیا ہو جس مقصد کے لیے وہ دیگر خواتین کو اغوا کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس دوران کسی بند گاڑی میں یا اس پینک سچوایشن میں اسے ایستھما اٹیک ہوا ہو اور انہوں نے گھبرا کے اسے ایک چوری کا واقعہ بناتے ہوٸے اس کی لاش پارک کے نزدیک پھینک دی ہو۔“ زہوک سوچتے ہوٸے ٹھہر ٹھہر کے بولا۔
”ہاں یہ ممکن ہے۔ اس ساری بحث اور سر کھپانے کے بعد ہم پھر اسی مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا۔ ہمارے سامنے تین سوال ہیں۔ اس سب کے پیچھے کون ہے؟ کیوں ہے؟ کس لیے ہے؟ یعنی اس سب سے اسے کیا فاٸدہ مل رہا ہے؟ ایک ان دیکھے گنہگار کا پیچھا بہت مشکل ہوتا ہے اور خصوصاً تب جب وہ پرفیکشنسٹ ہو۔ اس کے کام میں ترتیب اور کاملیت ہے۔ ہمیں اس سے دو قدم آگے رہنے کے لیے بھی اس کے کسی قدم کا نشان چاہیے۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ہم اسے ناممکن نہیں مان سکتے۔“ ہاتھ ہلا ہلا کے بولتا وہ انہیں اور خود کو آمادہ کر رہا تھا۔
”زہوک! تم پتا لگاٶ کہ یہ کیسز کس آفیسر نے ڈیل کیے ہیں۔“ کچھ سوچتے ہوٸے اس نے زہوک سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
یقیناً وہ اس ان دیکھے دشمن کے کسی قدم کا نشان ڈھونڈنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔
*****
بونڈرز پیلس میں خلافِ معمول چہل پہل تھی۔ ملازمین و ملازماٶں کی شامت آٸی ہوٸی تھی۔ قصر کی صفاٸی زور و شور سے جاری تھی۔ مسز دامینیکا سب کو ہدایات دیتیں پھرتی سے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھاگی پھر رہی تھیں۔ شام ہونے کو تھی مگر ان کا پھیلاوا سمٹنے میں نہیں آ رہا تھا۔
اب وہ قصر کے اندرونی داخلی دروازے کے سامنے کھڑی ملازمہ کو فرش چمکانے کی ہدایات دے رہی تھیں۔
”شام بخیر ماں!“ ارون نے پیچھے سے آ کر ان کے گلے میں بازو حماٸل کیے اور ان کے گال پہ بوسہ دیا۔
”شام بخیر! پیچھے ہٹو، میں اس وقت بہت مصروف ہوں۔“ ان کی نظریں خوب صورت چمکتی ٹاٸلوں پر خاک کے نادیدہ ذرات ڈھونڈ رہی تھیں۔
”آپ کیوں اتنی فکر کرتی ہیں؟ سب کام کرنے کے لیے یہ ملازم ہیں نا۔ یہ سب سنبھال لیں گے۔“ ماں کو تسلی دیتا وہ حفاظتی لکیر پار کرتا اندرونی فرش پر اپنے جوگرز کے نشان ثبت کر گیا۔
مسز دامینیکا نے صدمے سے اسے دیکھا جب کہ ملازمہ کو ان سے بھی زیادہ صدمہ ہوا تھا۔
ماں کی نظروں کے تعاقب میں اس نے آنکھیں نیچے جھکاٸیں تو اپنی ناقابلِ معافی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جو نزدیکی پارک میں بھاگ دوڑ کے آیا تھا گھاس پھوس اور مٹی اس کے جوگرز کے ساتھ یہاں تک آٸی تھی۔
”ارون! اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری ٹانگیں نہ توڑ دوں تو فوراً سے پیشتر میری نظروں سے اوجھل ہو جاٶ!“ دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکاٸے انہوں نے غصے سے کہا تھا تو وہ دوڑ کے باہر نکال آیا۔
”اے اِدھر آٶ! اس جگہ کو اچھی طرح صاف کرو!“ وہ ملازمہ کو پھر سے ہدایات دینے لگی تھیں جو اب عاجز آ چکی تھی۔ منہ ہی منہ میں ان کی سات پشتوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوٸے وہ اپنے کام میں جت گٸی۔
”یا خدا! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے معذور ہونے سے بال بال بچا لیا۔“ اپنی ٹانگوں کو پیار سے دیکھتے ہوٸے وہ لان میں داخل ہوا۔
رسلان نے اس کی بات پہ ایک بھرپور قہقہہ لگایا تو اس نے چونک کر اس سمت دیکھا جو کرسی کی پشت پر کوٹ پھیلاٸے، آفس بیگ میز پہ رکھے بیٹھا تھا۔
”آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟“ وہ چلتا ہوا اس تک آیا۔
”پیارے بھاٸی! مجھے اپنی ٹانگوں سے بہت پیار ہے اسی لیے میں اس طرف جانے کا رسک لیے بغیر یہیں بیٹھ گیا۔“ اس نے سرنڈر کرنے والے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوٸے کہا۔
”ماں کا بس چلے تو گھر کی سالانہ صفاٸی کے اس موقع پر ہمیں گھر بدر کر دیں۔“ اس نے منہ بناتے ہوٸے کرسی سنبھالی۔
”ویسے یہ سزا بھی گھر بدری سے کم نہیں ہے۔“ رسلان نے آنکھ دباتے ہوٸے رازداری سے کہا تو وہ ہنس دیا۔
”ویسے مسٹر ایڈورڈ کہاں ہیں؟ کیا انہیں داخلے کی اجازت مل گٸی تھی؟“ بازو میز پر ٹکاٸے اس نے جھک کر پوچھا۔
”بابا ہمارے باپ ہیں۔ وہ ایک زیرک انسان ہیں اسی لیے ابھی آفس سے نہیں لوٹے کہ ان کا لان میں بیٹھنے کا ارادہ نہیں تھا۔“ رسلان نے سچ کہا تھا۔
”خدا کا شکر ہے کہ یہ کرفیو صرف ان کی اینورسری کے موقع پر ہی لگتا ہے۔“ ارون نے گہری سانس بھر کے کہا۔
”سو تو ہے۔ کیا تم نے اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کو پرسوں کی تقریب میں مدعو کیا ہے؟“ رسلان نے یونہی پوچھ لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا دوست بس اس کا بھاٸی ہی ہے۔ اس پورے تعلیمی دورانیے میں اس کا کوٸی دوست ایسا نہیں تھا جس کو اس نے گھر کی تقریبات میں مدعو کیا ہو۔ شاید اس سوال کے توسط سے وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا اس نے ایسے دوست بنا لیے ہیں جنہیں وہ اپنے گھر تک لا سکے یا ابھی بھی دوستی کے معاملے میں وہ ویسا ہی ہے۔
”او خدا! مجھے تو یاد ہی نہیں تھا۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے یاد دلا دیا۔ مجھے واقعی اپنے دوستوں کو مدعو کرنا چاہیے۔“ ٹراٶزر کی جیب سے موباٸل فون نکالتے ہوٸے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”تو کیا ارون نے ایسے دوست بنا لیے ہیں جنہیں وہ گھر تک لا سکتا ہے؟“ اسے دور جاتے دیکھ کر رسلان نے سوچا۔
پتا نہیں کیوں مگر اسے یہ کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔ فطرتاً وہ خود بھی ایک تنہاٸی پسند شخص تھا جس کا حلقہٕ احباب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے سوشل سرکل میں کاروباری افراد ہی تھے جن سے دوستی کا پیمانہ سود و زیاں کا حساب تھا۔ اس کی پہلی ترجیح ہمیشہ اس کا گھر، اس کی فیملی اور اس کا بزنس رہا تھا۔ وہ محنتی انسان تھا جو ہمہ وقت کام میں مصروف رہنے کو ترجیح دینے والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابھی تک وہ مجرد زندگی گزار رہا تھا۔ ماں بابا کٸی بار اس کی شادی کے لیے سنجیدہ ہوٸے مگر وہ صفاٸی سے دامن بچا گیا کہ واقعتاً اسے کوٸی ایسی لڑکی ملی ہی نہ تھی جسے وہ اس قصر کی رانی بنا سکے۔
ایک گہری سانس خارج کرتے ہوٸے اس نے میز پر پڑا موباٸل فون اٹھا لیا۔ اسے باپ کو بتانا تھا کہ اب وہ گھر آ سکتا ہے کیوں کہ ملازمہ اب فرش خشک کر رہی تھی۔
*****
گاٶں کی تازہ فضا میں سانسیں بھرتے گویا اس نے اندر کی گھٹن کو دبا دیا تھا۔ ہارن بیم کے درخت تلے، لکڑی کے پھاٹک کی طرف پشت کیے بیٹھا وہ خود بھی چھاٶں جیسا گھنا اور شاداب لگ رہا تھا۔
موباٸل فون کان سے لگاٸے وہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ میز پر رکھا کافی کا مگ پرسکون تھا۔ شاید کافی بھی اس کی قسمت کی طرح یخ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ دوسری طرف سے کچھ سن کر وہ مسکرایا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
گھر کے اندرونی داخلی دراوزے کی چوکھٹ سے ٹکی تالیہ کی آنکھیں اسی پر مرتکز تھیں۔ وہ جب سے آیا تھا وہ بہانے بہانے سے اس کے گرد منڈلاتی پھر رہی تھی۔
اس کا فون پر کسی سے بات کرتے ہوٸے مسکرانا اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ دوسری جانب کسی لڑکی کا تصور کر کے اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔ اسی لیے دانستہ نامحسوس طریقے سے وہ اس تک کھنچی چلی آٸی۔
”ٹھیک ہے۔ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ باٸے!“ تالیہ کو پاس آتے دیکھ کر اس نے جلدی سے کہا اور کال کاٹ کے موباٸل فون جیب میں ڈالا۔
”کیا بات ہے؟ یوں میرے سر پہ کس لیے سوار ہو گٸی ہو؟“ اس نے درشتی سے پوچھا۔
”ک۔۔۔کچھ نہیں! کافی۔۔۔آپ کی کافی ٹھنڈی ہو گٸی ہو گی۔ میں گرم کر دیتی ہوں۔ آپ نے اسی لیے پی نہیں۔“ اس نے جلدی سے بات بناٸی۔
”رکو!“ وہ مگ اٹھانے ہی لگی تھی کہ اس نے جھپٹ کے مگ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں ٹھنڈی تلخ کافی کو حلق میں انڈیل لیا۔
”بس؟ میں نے پی لی ہے۔ اب یہ مگ اٹھاٶ اور اپنی شکل گم کرو!“ مگ کو میز پر پٹختے ہوٸے اس نے سختی سے کہا تو تالیہ کی آنکھیں پانیوں سے بھر گٸیں۔ اس کے ساتھ وہ ہمیشہ یونہی سختی سے پیش آتا تھا۔ مگ اٹھا کر وہ جلدی سے پلٹ گٸی۔
”رکو!“ اسے نے پیچھے سے آواز دی تو وہ بنا کچھ کہے ٹھہر گٸی۔
”جب تک میں یہاں ہوں کوشش کرنا کہ میرے سامنے مت آٶ! مجھے کام چور ملازماٶں کا اِدھر اُدھر کی فضول سرگرمیوں میں وقت ضاٸع کرنا سخت ناپسند ہے۔“ اس نے تنبیہہ کرتے ہوٸے ایک ہی جملے میں اسے اس کا کام اور مقام یاد دلایا تو بھوری آنکھوں کے بند ٹوٹ گٸے۔
”اب کیا تم یونہی بت بن کے کھڑی رہو گی؟ کیا تم نے سنا اور سمجھا؟“ اسے کوفت ہوٸی تھی۔
”جی بہتر! کوشش کروں گی کہ آپ کو دوبارہ شکایت کا موقع نہ دوں۔“ اپنے آنسوٶں پر قابو پاتے ہوٸے اس نے بمشکل کہا اور پل میں وہاں سے اوجھل ہو گٸی۔
نتالیہ کا اس کے سامنے سے ہٹ جانا ہی اس کے لیے بہتر تھا۔ اس نے ایک گہری سانس خارج کی۔ وہ بچہ نہیں تھا جو سب دیکھ کر بھی سمجھ نہ پاتا۔ اس کی حرکات و سکنات کو خاموشی سے دیکھ کر نظرانداز کرنا اسے بڑھاوا دینے کے مترادف تھا۔ اس کی زندگی میں نتالیہ کے لیے کوٸی جگہ نہیں تھی۔ وہ اسے بعد میں ملنے والی بڑی تکلیف سے بچانے کے لیے ابھی چھوٹی تکلیف دے دینا چاہتا تھا۔
”یہ کام چور لڑکی یونہی ناک میں دم کیے رکھتی ہے۔“ بوڑھا کب وہاں آیا تھا اسے خبر ہی نہ ہو سکی۔ وہ احتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔
”بیٹھو! بیٹھو! خدا تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے۔“ اس کے سامنے والی کرسی سنبھالتا وہ گویا ہوا۔
”پھر تم نے کیا سوچا؟“ بوڑھے نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔
”میں انتقام لوں گا۔“ اس کا لہجہ سلگ اٹھا تھا۔
”تم یہ انتقام ضرور لو مگر یاد رہے کہ ہم تمہیں نقصان پہنچنا برداشت نہیں کر سکتے۔ تمہاری ماں کا الزاٸمر دن بدن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔“ بوڑھے نے افسوس سے سر جھٹکا۔
”میں اپنی ماں کی قسم کھاتا ہوں کہ جس نے اسے اس حال تک پہنچایا ہے میں اسے برباد کر دوں گا۔“ اس کی مٹھیاں بھینچ گٸی تھیں۔
دوسری جانب چھوٹے سے کچن میں آنسو پونچھتی نتالیہ نے مریضہ کے لیے تیار کیے جانے والے سوپ کا پیالہ منہ سے لگایا اور دو گھونٹ بھرے۔ اس نے سوپ اچھا بنایا تھا۔ پیالہ ٹرے میں رکھتے ہوٸے اس نے زبان سے لبوں کو مزے سے چاٹا۔ واقعی بھوک کا احساس محبوب کے ہاتھوں ہونے والی تذلیل کے احساس سے کٸی گنا قوی ہوتا ہے۔
*****
ویرا کو جاب جاٸن کیے ہفتہ بھر ہونے کو تھا۔ اسے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ میں اچھی پوسٹ ملی تھی۔ آج اتوار تھا اور انہیں اٹھنے میں دیر ہو گٸی تھی۔ ٹراٶزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس وہ کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ جب کہ میلانا اول جلول حلیے میں چولہے سے تھوڑے فاصلے پر سلیب پہ چڑھ کے بیٹھی اس کے صبر کا امتحان لے رہی تھی۔ ارون نے انہیں اپنے والدین کی اینورسری پر مدعو کیا تھا مگر ویرا جانے کے لیے مان کے ہی نہیں دے رہی تھی۔
”دیکھو وہ تمہارا دوست ہے۔ تم ضرور جاٶ کہ وہ تمہارے دوست کا گھر ہے۔“ ویرا نے آملیٹ پلٹتے ہوٸے کہا۔
”ہاں تو تمہارا بھی تو متوقع سسرال ہے۔“ میلانا سر جھکاٸے بڑبڑاٸی۔
”کیا کہا تم نے؟“ ویرا نے ابرو سکیڑے۔
”کچھ نہیں۔ میں یہ کہہ رہی تھی کہ تمہارے باس کی اینورسری ہے۔ انہوں نے بھی تو سارے سٹاف کو مدعو کیا ہے۔ اور سٹاف میں تو تم بھی شامل ہو۔ تمہیں جانا چاہیے کہ ایمپلاٸیز کے لیے اپنے باس کو متاثر کرنے کے یہ مواقع بار بار نہیں آتے۔“ ارون سے کیے گٸے وعدے کا لحاظ تھا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی۔
”جو بھی ہے۔ مجھے رات کی تقریبات میں شرکت کرنا پسند نہیں۔ بلکہ مجھے تو تقریبات میں ہی شرکت کرنا پسند نہیں۔“ ویرا کے چہرے پہ اس معاملے میں ”نو کمپروماٸز“ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔
”ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں جاٶں گی۔“ اس نے دل پہ پتھر رکھ کے منہ لٹکا لیا۔
”یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ہم آج رات کوٸی اچھی سی مووی دیکھیں گے۔“ وہاں سکون ہی سکون تھا۔
”ویرا۔۔۔تم۔۔۔تم بھاڑ میں جاٶ!“ اسے گھورتی ہوٸی وہ چھلانگ لگا کے سلیب سے اتری۔
”کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے کہ تم میرے ساتھ نہیں جاٶ گی؟“ دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکاٸے اس نے فیصلہ کن انداز اختیار کیا۔
”نہیں!“ یک لفظی جواب اس کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔
”خدا کرے کہ تم جو آفس پہن کے جانے کے لیے نٸے مہنگے جوگرز لاٸی ہو اس پر بھوکے چوہوں کا ایک گروہ حملہ کر دے۔“ اس کی بددعا پر ویرا کا منہ صدمے سے کھل گیا کہ وہ جوگرز وہ بڑے دل سے خرید کر لاٸی تھی۔
”خدا کرے کہ۔۔۔“
”بس۔۔۔بس! میں تو مذاق کر رہی تھی۔ میں کیا میرے والدین کی روحیں بھی تمہارے ساتھ پارٹی میں ضرور جاٸیں گی۔“ ویرا نے دہل کر اس کی بات کاٹی۔
”او ویرا! تم پاک روح ہو!“ وہ جلدی سے لپک کر اسے پیچھے سے چمٹی۔
”اور تم بدروح ہو!“ ویرا نے دوبدو جواب دیا تو وہ ہنس دی۔
”ارون تم میرے کس کس احسان کا بدلہ چکاٶ گے میرے دوست؟“ دل ہی دل میں ارون سے مخاطب ہوتے اس نے اپنے فرضی کالر جھاڑے۔
*****
آج رات تو بونڈرز پیلس کی شان ہی نرالی تھی۔ مصنوعی روشنیوں نے یہاں دن کا سماں بنا رکھا تھا۔ لان کے دونوں اطراف آراٸشی انتظامات تھے۔ باٸیں حصے میں کھانے پینے کا انتظام تھا۔ وسیع لان میں خوب صورت نشستیں سجی ہوٸی تھیں۔ داٸیں حصے میں گیٹ کے مقابل ایک کشادہ سٹیج بنا ہوا تھا۔ دونوں اطراف سوٹڈ بوٹڈ حضرات اور سجی سنوری خواتین کی بھیڑ تھی۔ باوردی ملازمین، خادماٸیں اور ویٹرز برق رفتاری سے اپنی مخصوص خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
وہ پچھلے بیس منٹ سے منتظر نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اس کے برعکس ارون بجھا بجھا سا تھا۔ جب سے میلانا نے اسے بتایا تھا کہ ویرا نہیں آٸے گی وہ اداس سا ہو گیا تھا۔ بظاہر واسل کو کمپنی دیتا وہ کافی خوش تھا۔
شہر کی مشہور و معروف کاروباری شخصیات اور دیگر لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں کھڑے خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے۔ گھر کے سبھی افراد وقفے وقفے سے سب سے حال چال پوچھتے گھوم پھر رہے تھے مگر جب سے وہ آیا تھا ارون اسی کے ساتھ ایک کونے میں کھڑا ہو گیا تھا۔ رسلان کچھ لوگوں کے ساتھ کاروباری گفتگو میں مصروف تھا۔ گاہے بگاہے وہ اک مصروف سی نظر خاموش کھڑے ارون اور اس کے پہلو میں کھڑے گرے آنکھوں والے لڑکے پہ ڈالتا جس کی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی۔ وہ اپنے مہمانوں میں مصروف تھا اسی لیے ارون نے اپنے دوست سے اس کا تعارف نہیں کروایا تھا۔
”تمہارا محل کافی بڑا اور خوب صورت ہے۔“ جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوٸے واسل نے بات شروع کی۔
”شکریہ! اس گھر سے میرے بابا کو بہت محبت ہے۔“ ارون نے جواب دیا۔
”میں نے تمہارے بابا کا کافی ذکر سنا ہے۔ اب تو میں تمہارے بابا اور بھاٸی کا غاٸبانہ شیداٸی ہو چکا ہوں۔ میں ان سے ملنا چاہوں گا۔“ واسل نے ہمیشہ اسے اپنے باپ اور بھاٸی کی تعریف کرتے سنا تھا۔
”کیوں نہیں! ابھی تھوڑی دیر میں وہ اپنے دوستوں سے فارغ ہو لیں تو میں تمہیں سب سے متعارف کرواتا ہوں۔ تمہیں یقیناً خو۔۔۔“ ارون کی بات ادھوری رہ گٸی تھی کہ اسے جو نظر آ رہا تھا وہ خواب تھا۔
میلانا کے ساتھ چلتی ہوٸی وہ گھبراٸی سی ادھر ہی آ رہی تھی۔ واسل نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو تھم سا گیا۔
سفید پارٹی ویٸر ہاف سلیو، کھلے گھیرے والی لمبی فراک میں وہ کوٸی پری لگ رہی تھی۔ اس کے مزاج کے برعکس سفید فراک پر سلور سٹون ورک نہایت نفیس تھا۔ کھلے بالوں کو پشت پہ پھیلاٸے، کاجل میں ڈوبی سبز آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی وہ کافی خوش تھی۔ میک اپ کے نام پہ اس نے بس آنکھوں میں کاجل بھرنے اور لبوں پہ ہلکی سرخ لپ اسٹک لگانے کا تکلف کیا تھا۔ اس سادگی میں بھی وہ اردگرد گھومتے ایلیٹ کلاس کے میک اپ زدہ چہروں کو مات دے رہی تھی۔ اس کی سادگی اس کا حسن تھی تو اک شانِ بے نیازی سے اٹھی ہوٸی گردن اس کا امتیازی نشان۔
دریاٸے نیامیہ کے کنارے ڈوبی اک پرفسوں شام کا جادو تازہ ہو گیا تھا۔ واسل موروز کے سینے میں وہی آشنا سا شور اٹھا تھا جس کا دریاٸے نیامیہ ہمراز تھا۔
”او خدا! مجھے یقین نہیں آ رہا۔ تم لوگوں کو یہاں دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ خوش آمدید!“ ارون کی آواز اسے دریاٸے نیامیہ کے کنارے سے واپس لاٸی تو وہ سنبھل کر مسکرا دیا۔
”شکریہ!“ میلانا نے اعتماد سے گردن اکڑا کر ارون کو کچھ جتاتی ہوٸی نظروں سے دیکھا تو وہ سر خم کر کے گویا اس کا ممنون ہوا۔ اسے میلانا کا سرپراٸز اچھا لگا تھا۔
”تم دونوں بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔“ واسل کے لیے براہِ راست اس کی تعریف کرنا مشکل تھا۔
”شکریہ!“ دونوں نے ایک ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا۔
ارون نے ویرا کو دیکھا۔ سیاہ رنگ کے نفیس اور متناسب سے پارٹی گاٶن میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ بالوں کو خوب صورت جُوڑے میں سمیٹے، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتی وہ نروس ہو رہی تھی۔
”کیا تم ٹھیک ہو؟“ ارون نے براہِ راست اسے مخاطب کیا۔
”ہاں۔۔۔مجھے کچھ ہوا تھا کیا؟“ اس نے جلدی سے گھبرا کے پوچھا تو وہ سب ہنس دیے۔
”سنو! تم تینوں باتیں کرو میں ذرا یہ محل ایک نظر دیکھ لوں۔ یہ بہت خوب صورت ہے ارون!“ اس کے لہجے میں بچوں کی سی خوشی تھی۔ گویا اس نے پہلی مرتبہ اتنا بڑا اور خوب صورت گھر دیکھا ہو۔
”ہاں ضرور!“ ارون نے خوش دلی سے اسے اجازت دی تو وہ جلدی سے راہداری کی طرف دوڑی۔
واسل جیب سے موباٸل فون نکالتا بہانے سے وہاں سے ہٹ گیا اور کچھ دور جا کھڑا ہوا۔
اولیانا کچھ خواتین اور ماں کے ہمراہ کھڑی تھی جب اس نے ارون کو کسی لڑکی سے بات کرتے دیکھا۔ اس کے چہرے پہ پھیلے ہوٸے رنگ ناآشنا سے تھے۔ اسے وہ لڑکی کافی معقول لگی تھی۔
”کیا ارون اس لڑکی سے۔۔۔“ وہ کچھ سوچنے لگی۔
”نہیں۔ ایسا کچھ ہوتا تو وہ مجھے ضرور بتاتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی کوٸی دوست ہو۔“ خود ہی اپنی خیال کی نفی کرتی وہ مسٹر رامن کی بیوی کی طرف متوجہ ہوٸی جو اپنے بیٹے کی تعریف میں مگن تھیں۔
وہ مسٹر رامن سے بات کر رہا تھا جب اچانک اس کی نظر غیر ارادی طور پر راہداری کی طرف اٹھی۔ وہاں کچھ ایسا تھا جس نے اسے دوسری بار دانستہ پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔
اپنی سفید فراک کو دونوں جانب سے پکڑے، اردگرد ہونے والی چہل پہل سے بے نیاز وہ سرخوشی سے جھوم رہی تھی۔ ایڑھیوں کے بل ایک داٸرے میں گھومتی وہ کسی بے نیاز شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ مصنوعی روشنیاں اس کی سبز آنکھوں کی چمک کے سامنے ہیچ تھیں۔ اس منظر میں کچھ ایسا تھا کہ وہ بے اختیاز مسٹر رامن اور دیگر سے معذرت کر کے اس طرف بڑھا۔
وہ گھوم کر پلٹی ہی تھی کہ اپنے انتہاٸی قریب کھڑے اس شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچی جو دل چسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ناگواری سے اسے دیکھا جو لیمن رنگ کی ویسٹ کوٹ، کوٹ، ٹاٸی، پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔ اس کے جوتے، مہنگی گھڑی، اور دیگر اسسیسریز اس کی شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ ایک خوش نما خوشبو کا حصار اپنے گرد باندھے وہ اسے بھی اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا۔
”تم کون ہو؟ کہاں سے آٸی ہو؟“ رسلان نے بات کا آغاز کیا۔
”اور یہ سب میں تمہیں کیوں بتاٶں؟ کیا تم کوٸی ٹریول ایجنٹ ہو جو میرا روس کا ویزہ لگوانے کے لیے یہ معلومات اکٹھی کر رہے ہو۔“ میلانا کو اس کا تفتیشی انداز برا لگا تھا۔ رسلان کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
”معذرت! میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“ اس نے جلدی سے اپنی صفاٸی پیش کی۔
”جیسے میں تم جیسے لڑکوں کو جانتی نہیں ہوں۔“ وہ طنزاً مسکراٸی۔
”نہیں با خدا تم غلط سمجھ رہی ہو۔ پارٹی وہاں اس طرف ہے۔“ اس نے جلدی سے لان کی سمت اشارہ کیا۔
”میں تمہیں وہاں لے جاتا ہوں۔“
میلانا نے اس کی انگلی کے تعاقب میں دیکھا اور پھر اسے دیکھا۔
”کیا وہ جگہ دوسرے ملک میں ہے جہاں جانے کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت پڑے گی؟“
”ہاں؟“ وہ جو بے اختیاری میں اس سے بات کرنے کے بہانے کچھ بھی بول رہا تھا ہکا بکا رہ گیا۔
”میرے سامنے سے ہٹو! میں میلانا یگور ہوں۔ مجھے جہاں پہنچنا ہو میں وہاں بنا کسی کا سہارا لیے پہنچ جاتی ہوں۔“ اک ادا سے کہتی وہ پلٹی ہی تھی کہ اس کے داٸیں پاٶں کی ہیل مڑنے کے باعث اس کا توازن بگڑ گیا۔ اس سے قبل کہ وہ اپنے دعوٶں سمیت زمین بوس ہو جاتی ایک مضبوط ہاتھ نے اسے گھیرے میں لیتے ہوٸے اس کا باٸیں بازو مضبوطی سے تھاما۔ اس کا دوسرا بازو کلاٸی سے تھامتے ہوٸے وہ سیدھی کھڑی ہو گٸی تو اس نے اپنے بازو سینے پہ لپیٹ لیے۔ اب وہ اس کے عین سامنے کھڑا تھا۔
شرمندگی کی ایک لہر اس کے پورے وجود میں سرایت کر گٸی۔ اپنی مٹھیاں بھینچے وہ فرار کا راستہ ڈھونڈنے لگی جو وہ مسدود کر کے کھڑا تھا۔
”ہاں تو میلانا یگور! کہیں پہنچنے کے لیے سہاروں کی ضرورت چاہے نہ ہو لڑکھڑانے پہ سب سے پہلے انہی کی یاد آتی ہے۔ سہارے سفر مختصر نہیں کرتے مگر آسان ضرور کر دیتے ہیں۔“ دل کشی سے کہتا وہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ تبھی میلانا کی نظر اس کی آنکھوں پہ پڑی۔ وہ یوں تھم گٸی گویا اسے اس کی مطلوبہ شے مل گٸی ہو۔ اسے افسوس ہوا کہ اتنی دیر بحث میں ضاٸع کرنے کی بجاٸے اس نے اک نظر اسے غور سے کیوں نہ دیکھا۔
وہ یوں خوش ہوٸی گویا اس پل اس نے سب پا لیا ہو۔
وہ بازو پھیلاٸے اسے راستہ دے رہا تھا۔
”شکریہ!“ اس نے مسکرا کر کہا تو رسلان کو اس وقت ”مسکراہٹ“ لفظ پر ٹوٹ کے پیار آیا۔
وہ سہج سہج چلتی مسکرا رہی تھی۔ چند قدم چل کر وہ تھمی اور پلٹ کر دیکھا جہاں دو نیلی آنکھوں میں شوق کا اک جہان آباد تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سبز اور نیلی آنکھوں کے اس حسین ملاپ نے تھوڑی دور یہ سب بے بسی سے دیکھتیں دو گرے آنکھوں میں راکھ بھر دی تھی۔
وہ ارون اور ویرا کے پاس آ کے رک گٸی تو رسلان نے ایک گہری سانس بھری۔ وہ میلانا یگور سے مل کے پچھتا رہا تھا۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ آخر اس نے اپنی زندگی کے بتیس سال کہاں گنوا دیے؟ افسوس سے سر جھٹک کے وہ کچھ مہمانوں کی طرف بڑھ گیا۔
واسل سست قدموں سے چلتا ہوا ان کے پاس آن ٹھہرا۔ بظاہر ان سے گفتگو کرتی میلانا کی نظریں بار بار اس طرف اٹھ رہی تھیں جہاں وہ مصروف سا مسکراتا ہوا سامنے والے کی گفتگو سن رہا تھا۔
”میں ابھی آتی ہوں۔“ میلانا کے لیے ایک جگہ پہ رکنا محال ہو رہا تھا۔
”اب تم کہاں جا رہی ہو؟ یہاں سبھی انجان لوگ ہیں۔ تم آرام سے یہیں ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی؟ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہیں رکو!“ واسل نے اسے ٹوکا۔
”اور مجھ پر یہ پابندی لگانے والے تم کون ہوتے ہو؟“ میلانا نے ابرو سکیڑتے ہوٸے پوچھا۔
”میں۔۔۔میں تمہارا دوست ہوں۔“ واسل نے جلدی سے کہا۔
”ہاں تو دوست ہی رہو نا! مسٹر یگور بننے کی کوشش مت کرو!“ سختی سے کہتی وہ اسے باپ بننے سے منع کر رہی تھی۔
وہ کہہ کر رکی نہیں۔ اس کے پیچھے ایک شرمندگی بچی تھی جو واسل کے وجود سے لپٹ گٸی۔ ارون اور ویرا نے افسوس سے اسے دیکھا جو احساسِ اہانت کو ضبط کرتے ہوٸے زبردستی مسکرا دیا تھا۔
اس نے ایک نظر ویٹر سے جوس لے کر میلانا کو تھماتے رسلان کو دیکھا جو اسے الگ آتے دیکھ کر فوراً اس کی طرف چلا آیا تھا۔
اس کے دل میں اٹھنے والے شور کی نوعیت بدل چکی تھی۔ اک اضطراب تھا جو اسے کھاٸے جا رہا تھا۔
کون جانے کہ یہ اس کی طپش کی ابتدا تھی یا انتہا؟ کون جانے کہ اسے کب تک تڑپنا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا گو تھا کہ وہ ریڈ چرچ کی سیڑھیوں پہ مانگی جانے والی دیوی کو اس داس سے جدا نہ کرے۔ مگر وہ کہاں جانتا تھا کہ تڑپنا اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ بھلا تڑپے بنا بھی محبت کی تکمیل ممکن ہے؟

(جاری ہے)

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں