وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022ءکو حرمت سود پر ایک دفعہ پھر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ایسے فیصلے کے خلاف چھ ماہ کے اندر اپیل ہو سکتی ہے جو ہو گئی۔ اپیل ایک ہو یا کئی ہوں، اپیل ہوتے ہی فیصلہ معطل ہو جاتا ہے۔یہاں بھی یہی کچھ ہوا تو متاثرہ فریقوں نے حکومت وقت کی خبر لینا شروع کر دی کہ حکومتی بینکوں نے فیصلے کے خلاف اپیل کیوں کی ہے۔ بینکوں کا اپیل کرنا غلط ہے یا صحیح، بیشتر سیاست دانوں کی توجہ فساد کی جڑ کی طرف جاتی ہی نہیں۔ قانون کا کچھ فہم رکھنے کے باعث میں مخالفین اپیل اور دیگر مجاہدین حرمت سود کی توجہ کا انعطاف دو امور کی طرف کرنا چاہتا ہوں۔وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ایسے توجہ طلب نکات موجود ہیں جن پر اپیل ہو سکتی ہے۔اس نکتے پر متعدد اہل علم بہت مفید باتیں لکھ چکے ہیں۔ میں نے بھی ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور جون 2022ءمیں کئی امور کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن حرمت سود کا مقدمہ لڑنے والے سیاست دانوں کے ذہن علمی کی بجائے سیاسی رخ پر کام کرتے ہیں۔ حکومت مخالف سیاست دانوں کو پتا چلنا چاہیے کہ دو سرکاری بینکوں نے فیصلے کے خلاف اپیل کردی ہے تو عوام کو برانگیختہ کرنے کے لئے یہ کافی ہوتا ہے۔ صورت یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کرانے کے لئے ایک اپیل کافی ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف تو سپریم کورٹ میں 15 اپیلیں پڑی ہیں جن میں سے چند انفرادی طور پر کی گئی ہیں۔ تاہم نئے وزیر خزانہ نے سرکاری بینکوں کی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ معلوم نہیں، کچھ ہوا یا نہیں پھر کہوں گا کہ حکومت کا اپیل کرنا، نہ کرنا برابر ہے،ایک اپیل فیصلہ معطل کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے جو نجی بینک اور کئی دیگر لوگ کر چکے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ مقدمہ حرمت سود کا ہو یا کوئی اور، جب تمام فریقوں کو عدالتی عمل میں حصہ لینے کا آئینی حق حاصل ہے تو برافروختہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، بالخصوص جب اپیل کی گنجائش واقعتا موجود ہو۔ حرمت سود کا مقدمہ لڑنے والے تمام فریق مسئلے کی جڑ پکڑنے کی بجائے اس کی پھننگ اور شاخوں پتوں پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مجاہدین ہمارے محترم ہیں لیکن کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے کہ نجی بینکوں کو اپیل کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ یہاں تو انفرادی اپیلیں بھی موجود ہیں۔ تو پھر ان کا سامنا کیوں نہ کیا جائے؟آئیے مسلے کی جڑ پکڑیں۔زیرنظر فیصلے پر منعقدہ متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ میں نے ہر گفتگو کا محور دو نکات کے گرد پایا۔ ایک تو وہی کہ حکومتی اپیل بدنیتی پر مبنی ہے۔دوسرے یہ کہ اپیل ہوئی تو کیوں ہوئی، نہیں ہونا چاہیے تھی۔ میں نے کسی مجلس میں کسی شخص سے یہ نہیں سنا کہ جب اپیلیں ہوئے مدتیں ہو گئی ہیں تو چیف جسٹس سے سماعت شروع کرانے کی درخواست کیوںنہ کی جائے لیکن سماعت کہاں ہو؟شریعت اپیلنٹ بینچ تو موجود ہی نہیں۔ آئین کے تحت شریعت اپیلنٹ بینچ کے بغیر عدلیہ نامکمل ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پارلیمان، جوڈیشل کمیشن، پارلیمانی کمیٹی یا کوئی اور! یہاں آ کر حرمت سود سے براہ راست متعلق اور عدلیہ کو نامکمل رکھنے کے ذمہ دار کا تعین کرانا بھی تو حرمت سود کے مجاہدین کے ذمہ ہے۔کیا کسی نے کبھی سوچا کہ جب شریعت اپیلنٹ بینچ سرے سے موجود ہی نہیں تو ان اپیلوں کا فیصلہ کون کرے گا؟ مان لیجئے کہ یہ اپیلیں اب نوشتہ دیوار ہیں۔ لیکن اللہ اور رسول کے خلاف کھلی جنگ والے اس مقدمے کی سماعت 27 اکتوبر 2022ءتک شروع ہوجانا چاہیے تھی۔ کیا حرمت سود کے ہمارے معزز مجاہدین، محترم چیف جسٹس صاحب کو یہ توجہ دلانا پسند کریں گے کہ ایک سیاسی جماعت کی تیسری صف کا کوئی معمولی عہدیدار گرفتار ہو جائے تو ملک بھر کی عدلیہ اس شخص کو انصاف فراہم کرنے کی خاطر رات گئے متحرک اور چاق و چوبند ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ عمل ہماری مقدس اور آزاد عدلیہ کے لئے باعث فخر ہو گا لیکن اللہ اور رسول کے خلاف کھلی جنگ عشروں سے جاری ہے اور اس اہم ترین پہلو کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں کہ شریعت اپیلنٹ موجود نہیں۔ چنانچہ سماعت ہو تو کہاں ہو؟ شریعت اپیلنٹ بینچ بنے تو سہی، تاکہ سماعت شروع تو ہو اور کوئی نتیجہ سامنے آئے تاکہ نئی صف بندی کی جائے۔حرمت سود کا مقدمہ لڑنے والے محترم افراد سے گزارش ہے کہ کسی منجھے ہوئے وکیل کے ذریعے پوری تیاری کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی جائے کہ شریعت اپیلنٹ بینچ مستقل بنیادوں پر قائم ہوجائے۔ یہ لازمی (جی ہاں لازمی) آئینی تقاضا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا وفاقی شرعی عدالت کے آئندہ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل ہوتے ہی سماعت خود بخود شروع ہو جایا کرے گی۔ فیصلہ عشروں میں نہیں، ہفتوں مہینوں میں آ جایا کرے گا۔آپ کی اس درخواست پر سپریم کورٹ سے کوئی جواب تو آئے گا۔ محترم چیف جسٹس صاحب یہ تو بتائیں گے کہ اللہ اور رسول کے خلاف جنگ لڑنے والے اس اہم ترین آئینی ادارے کے نہ قائم کرنے میں انہیں کیا مشکل ہے۔ اگر مالیات کا مسئلہ ہے، حکومت رقم نہیں دے رہی تو بھلے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے جائیں۔ 50 سال سے یہ بینچ گھنگھور کالی منحوس گھٹاو¿ں سے کبھی کبھار دمکتے چاند کی مانند جھلک دکھا کر اگر پھر کالی بدلیوں کے پیچھے جا چھپتا ہے تو کیوں؟ہماری مقدس عدلیہ کے اوپر چھائی ان منحوس کالی گھٹاﺅں کا ذمہ دار کون ہے؟ سماعت سے یہ تو معلوم ہوگا کہ پردہ زنگار گوں کی اوٹ میں 50 سال سے کون ابلیسی کھیل رچانے بیٹھا ہے۔حرمت سود کا مقدمہ لڑنے والے تمام محترم افراد سے توقع ہے کہ وہ سینہ تان کر اپیلوں کا سامنا کریں گے۔ یہ کام انہوں نے کرنا ہی کرنا ہے یہ سامنا کہاں ہو گا؟آپ حضرات کو جب اکھاڑے ہی کا پتا نہیں ہے، اکھاڑا موجود ہی نہیں تو مقابلہ کیسے اور کہاں ہو گا؟ جب اس مقابلے نے ہونا ہی ہے اور جیتنا اللہ اور رسول کے سپاہیوں ہی نے ہے، جب یہ اکھاڑا انہی کا ہے تو اس پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں سے لڑے بغیر انہیں بے دخل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور اکھاڑا ؟ اکھاڑے کا تو وجود ہی نہیں۔ آپ کو فتح کیسے ملے گی؟
0